میں اپنے گزشتہ کالم ”توشہ و شوشا خانیاں“ میں یہ عرض کر رہا تھا علیم خان کو وزیراعلیٰ پنجاب نہ بنائے جانے کی کئی وجوہات تھیں، سب سے پہلی وجہ یہ بنی 2018 کے عام انتخابات جیتنے اور پنجاب میں اکثریت حاصل کرنے کے بعد خان صاحب نے علیم خان کو وزیراعلیٰ پنجاب بنانے کا سوچا اْنہوں نے جب اپنے اس ارادے کے بارے میں اپنے اْس وقت کے فوجی آقاؤں کو بتایا اْنہوں نے خان صاحب کے اس ارادے کی ضرورت سے کچھ زیادہ تعریف کر دی، ایک صاحب نے تو یہاں تک کہہ دیا ”علیم خان سے زیادہ موزوں اس عہدے کے لئے اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا، ایک تو وہ پہلے بھی وزیر رہ چکا ہے دوسرے وہ مالی لحاظ سے بھی اس قدر مضبوط ہے اْس کے وزیراعلی بننے سے کرپشن کا کوئی خدشہ بھی نہیں رہے گا“۔۔ بس یہی وہ لمحہ تھا جب خان صاحب کے کان کھڑے ہوگئے،اْنہوں نے یقینا یہ سوچا ہوگا علیم خان کو اگر اْنہوں نے وزیراعلیٰ بنا دیا اپنے اثرورسوخ اور کارکردگی کے اعتبار سے وہ کہیں اتنا آگے نہ نکل جائے یا اتنا مضبوط نہ ہو جائے کہ میری ساری اہمیت ہی ختم ہو کر رہ جائے، چنانچہ اْسی لمحے علیم خان کو وزیراعلیٰ نہ بنانے کا اْنہوں نے ارادہ باندھ لیا تھا، یہ بات اْس وقت اْن کے انتہائی قریبی ذرائع نے مجھے بتائی تھی، ایسا ہی ایک نتیجہ وہ پہلے ہی بھگت چکے تھے، 2013 کے الیکشن میں اْنہوں نے پرویز خٹک کو کے پی کے کا وزیراعلیٰ بنایا اس مقصد کے لئے بھی اْنہوں نے اپنے کچھ فوجی بھائیوں سے ہی مشاورت کی تھی، اْنہوں نے خان صاحب کے اس فیصلے کی تائید کی اور پرویز خٹک وزیراعلیٰ بن گئے، پرویز خٹک نے بطور وزیراعلیٰ یقینا بہت محنت کی، البتہ اس محنت میں بہت بڑا ”نقص“یہ تھا کبھی کبھی وہ خان صاحب کا فون اٹینڈ نہیں کرتے تھے، نہ رنگ بیک کرتے تھے، محض اسی ایک خرابی کی وجہ سے وہ دوسری بار وزیراعلیٰ نہ بنائے گئے۔ اْن کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کے پی کے کی پولیس میں سیاسی مداخلت اْنہوں نے تقریباً ختم کروا دی تھی، اْن کے اس کارنامے کا کریڈٹ بھی خان صاحب لیتے رہے، اپنی کئی تقریروں کئی بیانات میں اکثر وہ فرمایا کرتے تھے“میں نے کے پی کے کی پولیس میں سیاسی مداخلت مکمل طور پر ختم کر دی ہے”۔۔ اوہ بھائی اگر یہ کارنامہ آپ نے کیا ہوتا تو یہی کارنامہ پنجاب میں اپنی حکومت کے قیام کے بعد کرتے ہوئے آپ کو موت پڑتی تھی؟ پنجاب میں تو آپ کے دور میں پولیس میں سیاسی مداخلت پہلے سے بھی کئی گْنا بڑھ گئی تھی۔ کے پی کے میں پولیس میں سیاسی مداخلت کے خاتمے میں پرویز خٹک اس حد تک گیا۔ یہ بات مجھے اْس وقت کے آئی جی کے پی کے ناصر درانی نے خود بتائی تھی کہ پرویز خٹک کے آبائی ضلع میں ایک ایسے پولیس افسر کو میرٹ پر اْنہوں نے ڈی پی او لگا دیا جو وزیراعلیٰ پرویز خٹک کے بدترین سیاسی حریف کا داماد تھا۔۔ ناصر درانی کا خیال تھا یہ اقدام پرویز خٹک کے لئے ناقابل برداشت ہوگا اور وہ بطور وزیراعلیٰ اْنہیں حکم دیں گے یہ آرڈرز فوری طور پر کینسل کئے جائیں۔ ناصر درانی انتظار کرتے رہ گئے اور پرویز خٹک نے کوئی گلہ تک اْن سے نہیں کیا۔۔ کے پی کے کی پولیس میں سیاسی مداخلت ختم کرنے میں خود ناصر درانی کا کردار بھی بہت اہمیت کا حامل تھا۔ میرے دماغ میں اس وقت یادوں کی ایک بارات ہے۔ ناصر درانی مرحوم کے ساتھ میرا ذاتی و قلبی تعلق اْن کی دیانت و دیگر انسانی خوبیوں کی وجہ سے تھا۔ میں چاہتا تھا یہ خوبیاں مجھ میں بھی ہوں اسی لئے میں زیادہ وقت اْن کی قْربت میں رہتا اْن کی مہربانی وہ مجھے اپنے گھر کا فرد سمجھتے تھے۔ وہ پنجاب کے ایڈیشنل آئی جی سپیشل برانچ تھے اْنہیں آئی جی پنجاب بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اْس وقت کے وزیراعلیٰ شہباز شریف نے اْنہیں بْلا کر اپنے اس فیصلے سے آگاہ کیا، اس موقع پر ناصر درانی نے اْن سے کہا“سر آپ کی مہربانی آپ نے اس اہم عہدے کے لئے میرے بارے میں سوچا مگر سر گزارش یہ ہے اگر بطور آئی جی میرے اختیارات آپ نے یا کسی اور نے استعمال کرنے ہیں بہتر ہے اس عہدے کے لئے کسی اور کے بارے میں سوچ لیا جائے”۔۔ شہباز شریف نے اْنہیں یقین دہانی کروائی آپ اپنے اختیارات میں مکمل طور پر آزاد ہوں گے مگر مجھے رزلٹ چاہئے”ناصر درانی نے فرمایا“اگر آپ چھ ماہ میں عوام کو پولیس کے گْن گاتے ہوئے نہ دیکھیں۔ آپ کو کہنے کی ضرورت نہیں پڑے گی میں یہ عہدہ خود چھوڑ دْوں گا ”۔۔ شہباز شریف نے کہا“ٹھیک ہے آج ہی آپ کا نوٹیفکیشن ہو جائے گا ”اْس دن نوٹیفکیشن نہ ہوا اور کچھ دنوں بعد ناصر درانی کی جگہ کسی اور کو آئی جی پنجاب بنا دیا گیا, ظاہر ہے جو تقاضا ناصر درانی نے شہباز شریف سے کیا تھا اْس کے نتیجہ یہی نکلنا تھا۔ وہ لوگ پولیس کو کیسے ٹھیک ہونے دیتے جنہوں نے بڑی محنت سے خود پولیس کو تباہ کیا تھا۔ پولیس میں جرائم پیشہ لوگوں کو بھرتی کیا تھا۔۔ بعد میں یہ بھی پتہ چلا اْس وقت کے وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے اْس وقت کے وزیراعظم نواز شریف سے صاف صاف کہہ دیا تھا ناصر درانی کو اگر آئی جی پنجاب بنایا گیا وہ وزارت سے استعفیٰ دے دیں گے ”چودھری نثار علی خان کے اس بغض کی وجہ شاید یہ تھی ناصر درانی جب ڈی آئی جی پنڈی رینج تھے وہ چودھری نثار علی خان کے صرف جائز کام ہی کرتے تھے اور ناجائز کام ناصر درانی سے کہنے کی اْنہیں ہمت نہیں ہوتی تھی۔ اس بات کا اْنہیں بہت رنج تھا کہ ناصر درانی ہوتا کون ہے جسے ناجائز کام کہنے کی مجھ میں ہمت نہ ہو؟؟؟ بہرحال شہباز شریف نے ناصر درانی کو آئی جی پنجاب نہ بنا کر جو زیادتی کی اْس کا ازالہ اپنی طرف سے اْنہوں نے یوں کرنے کی کوشش کی جب اسٹیبلشمنٹ ڈویثرن نے آئی جی کے پی کے کے لئے اْن کا نام تجویز کیا شہباز شریف نے فوری طور پر اْنہیں پنجاب سے ریلیو کرنے کی اجازت دے دی۔ اب اگلے کالم میں، میں آپ کو اگلی داستان سْناؤں گا کہ کے پی کے میں آئی جی بننے سے پہلے ناصر درانی نے خان صاحب کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں کیا وعدے اْن سے لئے تھے اور اس ملاقات کا اہتمام کس نے کیا تھا؟ آخر میں یہ بھی عرض کروں گا علیم خان کو وزیراعلیٰ پنجاب نہ بنانے کے لئے کیا کیا سازشیں اْن کے خلاف خان صاحب کو تیار کرنی پڑیں۔ (جاری ہے)