زراعت نسلِ انسانی کی بقاء کی ضامن ہے اور یہی ہماری ملکی معیشت کی کایا پلٹ کر ملک کو خود کفالت کی منازل سے ہمکنار کر سکتی ہے۔ زرعی خود کفالت میں ہی قوم کی سربلندی ہے اور جس ملک میں اناج نہیں اس کی دنیا میں کوئی حیثیت نہیں۔ اس کی ساری شان و شوکت دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔ روس جو کرۂ ارض کے چھٹے حصے پر پھیلا ہوا تھا اور دنیا کی سپر پاور تھی۔ اسے بھی غذائی قلت کی وجہ سے امریکہ کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے۔پاکستان میں ہر کوئی زراعت کی اہمیت جانتا ہے اور اربابِ اختیار بیان دیتے رہتے ہیں کہ قدیمی زراعت کو سختی سے کاروباری خطوط پر منظم کر دیا جائے گا۔ ان تمام خوش آئند بیانات کے باوجود اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ہمارے کاشت کار خصوصاً چھوٹے کاشت کار اقتصادی اور معاشی بحران کا شکار ہیں۔ ہماری زراعت گوناگوں نہایت پیچیدہ مسائل سے دوچار ہے۔ غذائی خود کفالت کے مسئلہ پر بات کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ موجودہ دنوں میں گندم، چینی اور دوسری اجناس کا جو بحران آیا ہے اس نے ملک میں سنگین انارکی پھیلا دی۔ خوردنی تیل الگ مستقل روگ ہے جس کی درآمدپر ہر سال اربوں روپے خرچ ہو جاتے ہیں۔ عالمی تناظر میں جائزہ لیا جائے تو ہماری ہر فصل کی فی ایکڑ پیداوار بیشتر ممالک سے کم ہے۔ غیر اقتصادی پیداواری یونٹ معاشی محرومیوں کی زندہ تصویر ہیں۔ گزشتہ سات دہائیوں میں ہم زراعت میں صرف یہ ا نقلاب لائے ہیں کہ ہمارے 90 فیصد کاشت کار معاشی لحاظ سے بد حال ہیں۔ مسلم ممالک میں ترکی، مصر جو کہ ہم سے
پیچھے تھے اب بہت آگے نکل چکے ہیں اور تھائی لینڈ جیسا پسماندہ ملک بھی اب زرعی پیداوار میں خود کفیل ہو گیا ہے۔ پاکستان میں اگر چہ کہنے کو تو یہاں زرعی اصلاحات کی گئیں لیکن عملاً یہ ہوا کہ بڑے زمینداروں اور افسروں کی دھوکہ دہی سے ابھی تک ان اصلاحات کو صحیح معنوں میں نافذ ہونے ہی نہیں دیا۔ اب بھی بڑے زمیندار نہری زمین کے وسیع و عریض قطعات پر قابض ہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ بڑے زمیندار اب بھی غریب مزارعوں پر مسلط ہیںاور انہوں نے قیامِ پاکستان سے ہماری سیاست کو تباہی کے کنارے لا کھڑا کیا ہے۔ یہ ملک ان لوگوں کے نزدیک ایک کھیل تماشہ ہے بلکہ پاکستان کی سیاست ایک مافیا کا روپ دھار چکی ہے۔ ایک ہی خاندان کے نسل در نسل پانچ پانچ افراد اسمبلیوں کے ممبر ہیں۔ یہ خاندان آپس میں ہی رشتہ داریاں کرتے ہیں۔ پاکستان اس وقت پوری طرح چند سو جاگیر داروں اور صنعت کاروں کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے۔ ملک میں زراعت کے شعبہ میں خستہ حالی اور نئے نئے شہروں کی تعمیر اور زرعی زمین کے دھیرے دھیرے فقدان نے صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ اس وقت جب کہ ہم صرف توانائی بحران کی بات کرتے ہیں، زراعت اور آنے والے طوفان کی طرف کوئی دھیان نہیں دے رہا ہے۔ صرف اس وقت ملک میں گندم، چینی، سبزیوں اور کھانے کے تیل کا فقدان ہوتا ہے تو شور مچایا جاتا ہے، جیسا کہ حالیہ دنوں میں گندم، چینی کے بحران نے حکومت کی چولیں ہلا کے رکھ دیں۔ ہر طرف زراعت میں ناقص حکمتِ عملی کی باتیں سنی جانے لگ گئیں۔ ایسے میں ہر حکومت گندم، گنے کے کاشت کاروں اور عوام کو دلاسے، تسلیاں اور امیدوں کا لولی پوپ تھما کر انہیں وقتی طور پر خاموش کر دیتی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ پاکستان کی معاشیات بہت حد تک زراعت پر منحصر ہے کیونکہ ہمارا ملک ایک زرعی ملک ہے۔ یہ ہماری قومی معاشیات کا بڑا حصہ مہیا کرتی ہے اور اندازے کے مطابق آدھے سے زیادہ آبادی اس پیشے سے منسلک ہے۔ ہماری زراعت کا زیادی تر انحصار پانی پر ہے، جو تقریباً 4 ہزار میل لمبی نہروں پر مبنی ہے۔ یہ دنیا کا وسیع ترین نہری سسٹم ہے۔ زیادہ تر پانی دریائے سندھ سے آتا ہے جب کہ تھوڑا بہت پانی پنجاب کے دوسرے دریاؤں سے بھی حاصل کیا ہوتا ہے۔ ترقی پزیر ممالک خاص طور پر ہمارے اپنے ملک میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ لوگوں کو زراعت، باغبانی ، خوراک سے متعلق ٹیکنالوجی اور ان چیزوں سے متعلق اچھی تعلیم وتربیت دی جائے۔ یہی نہیں بلکہ ہمارے ملک میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ لوگوں کو معاشیات و انتظامات کی تعلیم دی جائے جس کا تعلق زراعت ، خوراک اور ان سے متعلق صنعتوں سے ہے۔ دو بہت بڑی مشکلات یا مراحل جن کا پاکستان کو فوری اور فوری سامناہے وہ ہے آبادی میں بے تحاشا اضافہ اور شہری و رہائشی اسکیموں کا بے انتہا پھیلاؤ ہے۔ سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ پنجاب میںہے۔ خاص طور پر فیصل آباد، ساہیوال، اوکاڑہ، ملتان وغیرہ میں لاکھوں ایکڑ زرخیز زمین ضائع ہو رہی ہے۔ جس پر رہائشی سوسائٹیاں بنائی جا رہی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اور بہت اچھی زرخیز زمین سیم و تھور کا شکار ہو کر بیکار ہوتی جا رہی ہے۔ ہم تمام زرخیز اور قابلِ کاشت زمینوں پر عمارتیں بنا رہے ہیں۔ اور پھر چند سالوں بعد فصلیں اگانے کے لئے زمین ہی نہیں ملے گی۔ اگر ہمیں مسقتبل میں غذائی قلت سے بچنا ہے تو زراعت پر دھیان دینا پڑے گا۔