دوستو، کیا آپ نے کبھی نوٹ کیا ہے کہ مردوخواتین کے مغربی طرز کے لباس میں کچھ معمولی فرق ہی ہوتا ہے، جن میں سے ایک فرق شرٹس کے بٹنوں میں ہوتا ہے۔ آپ نے مشاہدہ کیا ہو گا کہ مردوں کی شرٹ کے بٹن دائیں طرف جبکہ خواتین کی شرٹ کے بٹن بائیں طرف لگے ہوتے ہیں۔ یہ بحث ایک یورپی ویب سائٹ پر چلی تو ہم پر انکشاف ہوا کہ ۔۔ اس فرق کی ابتداصدیوں قبل ہوئی جب مرد تلواروں سے جنگیں لڑا کرتے تھے جبکہ خواتین گھر میں بچوں کی پرورش کیا کرتی تھیں۔ مرد کو جنگ کے دوران سیدھے ہاتھ سے تلوار چلاتے ہوئے اپنے دفاع میں گاہے شرٹ اتارنی پڑ جاتی تھی، لہٰذا اس کی شرٹ کے بٹن دائیں طرف رکھے گئے تاکہ وہ سیدھے ہاتھ سے تلوار چلاتے ہوئے بائیں ہاتھ سے آسانی سے شرٹ کے بٹن کھول سکے۔ اسی طرح خواتین عموماً بچہ اپنے بائیں ہاتھ میں اٹھاتی ہیں اور ان کا دایاں ہاتھ فارغ ہوتا ہے۔ لہٰذا ان کی شرٹس کے بٹن بائیں طرف لگانے شروع کیے گئے تاکہ وہ بچے کو دودھ پلانے کے لیے سیدھے ہاتھ سے آسانی سے بٹن کھول سکیں۔ایک صاحب نے اس فرق کی یہ وجہ بیان کی ہے کہ زمانہ قدیم میں جب لوگ گھوڑوں پر سفر کرتے تھے، خواتین گھوڑے پر ایک طرف ٹانگیں کرکے بیٹھا کرتی تھیں۔ چنانچہ ان کی شرٹس کے بٹن دائیں طرف ہونے کی وجہ سے شرٹس میں ہو ا بھر جاتی تھی، لہٰذا ان کی شرٹس کے بٹن الٹی طرف لگانے شروع کر دیئے گئے۔ایک اور صاحب نے دخل درمعقولات کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ۔۔ خواتین کی شرٹس پر بٹن الٹی طرف محض اس لیے لگانے شروع کیے گئے تاکہ مردوخواتین کی شرٹس میں فرق نمایاں ہو سکے۔ چونکہ مردوخواتین کی شرٹس کی کٹنگ میں فرق ہوتا تھا جو صرف پہننے پر ہی معلوم ہوتا تھا لہٰذا اکثر خریدار غلطی سے دوسری صنف کی شرٹ لے جاتے تھے، اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے دونوں کی شرٹس کے بٹن الگ الگ سمت میں لگانے شروع کیے گئے تھے۔
کچھ روز قبل کراچی میں ایک وکیل رہنما کی مصروف شاہراہ پر ٹارگٹ کلنگ ہوئی، نقاب پوش موٹرسائیکل سواروں نے کار میں بیٹھے وکیل رہنما پر گولیاں برسائیں اور آسانی سے فرار ہوگئے۔اس واقعہ کو پہلے پہل تو لسانی رنگ دینے کی کوشش کی گئی لیکن جب تفتیشی ٹیموں نے باریک بینی سے تحقیقات کی تو انکشاف ہوا کہ دوسری شادی کرنے پر پہلی بیوی ناخوش تھی، اس نے اپنے بھائی اور بہنوں کی مدد سے یہ ٹارگٹ کلنگ کرائی ، مبینہ قاتل برادرنسبتی نکلا۔ پولیس نے اس حوالے سے تمام
ثبوت و شواہد اکٹھے کرلئے جس میں وڈیو بھی شامل ہے۔اسی طرح کا واقعہ بھارت میں بھی پیش آیا۔بھارتی ریاست بہار کے ضلع’’ گیا‘‘ میں ایک خاتون نے اپنے زیورات کو گروی رکھ کر شوہر کے قتل کے لیے پیسے جمع کیے، پیسے لے کر قتل کرنے والے بدمعاشوں سے دو لاکھ روپے میں قتل کا معاہدہ ہوا۔خاتون نے اپنے عاشق ذیشان سے مل کر شوہر طیب علی کو قتل کرنے کی سازش رچی تھی، ضلع گیا میں تقریبا دو ماہ قبل20 اکتوبر کو طیب علی کو کسی اور نے نہیں بلکہ اس کی بیوی نے ہی قتل کرایا تھا۔قاتلوں کو پیسے دینے کے لیے مقتول کی بیوی افشاں پروین نے اپنے زیورات گروی رکھے تھے اور اپنے عاشق کو پیسے دے کر قاتلوں تک بھجوایا تھا تاکہ وہ ان کا قتل کرسکیں۔قتل کا سودا تین لاکھ روپے میں طے پایا تھا، سُپاری کلر کو ایک لاکھ روپے ایڈوانس میں دیے گئے تھے، باقی روپے دینے کی بات قتل کے بعد طے پائی تھی۔پولیس نے اس معاملے میں تین ملزموں اور مقتول کی بیوی افشاں پروین کو گرفتار کرلیا ہے، ان کے قبضے سے قتل میں استعمال ہونے والا اسلحہ برآمد ہوچکا ہے۔۔ سوچ لیں کچھ بیویاں کتنی ضدی اور خطرناک ہوتی ہیں۔اسی طرح پنجاب کے شہر اوکاڑہ میں بیوی نے اپنے گھر والوں کے ساتھ مل کر شوہر کو سرِ عام پیٹ ڈالا۔ میاں بیوی میں ناراضی چل رہی تھی جس کے باعث خاتونِ خانہ اپنے میکے آئی ہوئی تھی۔ اس دوران اس کا شوہر دوائی لینے ہسپتال گیا اور اتفاق سے بیوی بھی اسی وقت دوائی لینے اپنے گھر والوں کے ساتھ ہسپتال آگئی۔ دونوں کا آمنا سامنا ہوا تو بیوی نے گھر والوں کے ساتھ مل کر شوہر کو تشدد کا نشانہ بنا ڈالا۔ واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پروائرل ہوئی جس میں بیوی اور سسرالیوں کونہتے شوہر کی درگت بناتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔وڈیو وائرل ہونے کے بعد شوہر بے چارے کی معاشرے میں تو عزت چھوڑیں، محلے میں کیا عزت رہ گئی ہوگی؟؟
دنیا میں آئے روز ایسے عجیب و غریب واقعات رونما ہوتے ہیں کہ جن کے بارے سوچ اور جان کر عقل انسانی دنگ رہ جائے،ایسا ہی ایک واقعہ مصر میں پیش آیا جہاں پر پڑوسیوں سے مانگ کر کپڑے پہننے والی خاتون کا شوہر طلاق کے لئے عدالت میں پہنچ گیا۔عرب میڈیا کے مطابق یہ حیرت انگیز واقعہ مصر میں پیش آیا جہاں پرایک 30 سالہ شخص اپنی بیوی کی چوری کی حرکات سے تنگ آکر عدالت پہنچ گیا، اس نے عدالت کو بتایا کہ میری بیوی ویک اینڈ پر سیروتفریح کے لیے پڑوسیوں سے کپڑے مانگ لاتی ہے لیکن کبھی انہیں واپس نہیں کرتی۔عدالت کو مصری شخص نے بتایا کہ میری اہلیہ ہر بار کسی نئے پڑوسی سے کپڑے مانگ لاتی ہے اور ان کو دھمکی بھی دے کر آتی ہے اگر وہ اپنے کپڑے واپس مانگنے آئی تو انہیں تشدد کا نشانہ بنائے گی۔30 سالہ شخص نے جب اپنی اہلیہ سے اس بات کی تصدیق کرنا چاہی تو اس نے فوراً سب کچھ تسلیم کرلیا جس پر میں نے اس سے طلاق مانگی لیکن وہ اس پر راضی نہیں ہوئی لہٰذا میرے پاس فیملی کورٹ جانے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں بچا تھا۔مصری شہری کے مطابق پڑوسی خاتون نے مجھے بتایا کہ آپ کی بیوی کی اس حرکت پر میں پولیس میں شکایت درج کروارہی ہوں جس پر میں نے انہیں نئے کپڑے دلاکر معاملہ رفع دفع کرنے کی درخواست کی اور وہ مان گئے جس سے میں پولیس ا سٹیشن جانے سے بچ گیا۔
اچھا کوئی بھی ایسا واقعہ اگر آپ کے اطراف ہوا ہوتو پہلے تو آپ کو غالب گمان ہوگا کہ خاتون بے چاری پر ظلم ہوا ہوگا۔۔ جیسا کہ فیصل آباد میں چوری کرنے والی خواتین کا واقعہ آپ کے سامنے ہے، ان نام نہاد مظلوم خواتین نے اپنے کپڑے خود پھاڑے اور الٹا کیس دکانداروں پر بنوادیا۔۔ گریٹر اقبال پارک لاہور کا واقعہ دیکھ لیں۔۔ متنازع خاتون ٹک ٹاکر نے کس طرح مگرمچھ کے آنسو بہا کر ملک کو عالمی سطح پر بدنام کیا کہ یہاں خواتین بالکل بھی محفوظ نہیں، لیکن بعد میں سب کچھ سامنے آگیا۔خاتون ٹک ٹاکر کا ساتھی ریمبو جیل میں چکی پیس رہا ہے اور ضمانت کی کوششیں کررہا ہے۔اسی طرح ہمارے محلے میں ایک شادی ہوئی۔۔ لڑکا بیچارہ انڈر میڑک اور لڑکی ایم بی اے بینک ملازم تھی۔۔ شادی کی وجہ محض لڑکا اور لڑکی کا خالہ زاد ہونا تھا۔۔پورے محلے میں عمُومی اور حلقہ خواتین میں خصُوصی طور پر صفِ ماتم بِچھ گئی۔۔ ہر خاص و عام لڑکی کے ساتھ غائبانہ ہمدردی جتلاتا اور۔۔ظلم ہوا ہے، بہت بڑا ظلم ہوا ہے کی تسبِیح کرتا نظر آیا۔۔کچھ دِنوں بعدہمارے ہی محلے میں بینک میں اعلیٰ عہدے پر فائز نوجوان کی شادی اپنے ماموں کے گھر ہوئی۔۔ لڑکی اَن پڑھ بلکہ چِٹّی اَن پڑھ تھی، خُوبی صرف یہ کہ ماموں زاد تھی۔ ہر کوئی کہتا کتنی قسمت والی ہے، بہت خوش نصیب ہے جو اتنا پڑھا لکھا خاوند مِلا۔۔
اوراب چلتے چلتے آخری بات۔۔بگڑے ہوئے بیٹے کی شادی یہ کہہ کر کردی جاتی ہے کہ بیوی سدھار دے گی، جب بیوی سدھار دیتی ہے تو کہتے ہیں۔جوروکا غلام بن گیا ہے۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔