لاہور: سینئر صحافی سلیم صافی کے مطابق پچھلے سولہ ماہ میں حکومت میں شامل تمام جماعتوں کے درمیان اسٹیبلشمنٹ کی خوشامد اور اس کی سرپرستی حاصل کرنے کا مقابلہ رہا۔ اسٹیبلشمنٹ کی خوشی کے لئے جتنے بھی فیصلے ہوئے اس میں زرداری، مولانا، مینگل اور دیگر سب شریک رہے لیکن الزام صرف شہباز شریف کو دیا جارہا ہے۔ شہباز شریف کا شروع دن سے یہ بیانیہ رہا کہ اسٹیبلشمنٹ سے مخالفت مول نہیں لینی چاہئے اور زمینی حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے آگے بڑھنا چاہئے
سلیم صافی نے اپنے کالم میں لکھا کہ زرداری جمہوریت کے علمبردار سمجھے جاتے ہیں جبکہ میاں شہباز شریف اسٹیبلشمنٹ کے بندے ۔ اسی طرح 2018 کے بعد جعلی اسمبلیوں میں بیٹھنے کا فیصلہ پیپلز پارٹی کے ایما پر سب نے مشترکہ طور پر کیا اور یہ اسٹیبلشمنٹ کے ایما پر ہورہا تھا لیکن پھر بھی وہ جمہوریت پسند اور شہباز شریف اسٹیبلشمنٹ کے بندے قرار پائے۔ اسی طرح جب میاں نواز شریف کو بیماری کے وقت ملک سے باہر جانے کی اجازت دی جارہی تھی تو یہ ساری بات چیت میاں صاحب کی براہ راست ہوئی تھی اور اس میں شہباز شریف کا کوئی کردار نہیں ۔
پھر جنرل قمرجاوید باجوہ کی ایکسٹینشن کی حمایت کا فیصلہ بھی شہباز شریف کا نہیں بلکہ میاں نواز شریف کا تھا جس کے لئے سہولت کاری خواجہ آصف کررہے تھے ۔ جب اسٹیبلشمنٹ عمران خان کی سہولت کاری سے تائب ہوگئی تو اسمبلی توڑنے کی بجائے اپنی حکومت بنانے کا فیصلہ تنہا شہباز شریف کا تھا اور نہ وہ ایسا کرسکتے تھے ۔ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد لاکر اپنی حکومت بنانے کا فیصلہ شہباز شریف کا نہیں بلکہ میاں نواز شریف ،آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمان، محمود خان اچکزئی، سردار اختر مینگل اور باپ پارٹی کا مشترکہ فیصلہ تھا۔
شہباز شریف بڑی پارٹی کا سربراہ ہونے کے ناطے وزیراعظم ضرور تھے لیکن اس حکومت میں زرداری سے لیکر مولانا تک اور اختر مینگل سے لیکر ایم کیوایم تک سب یکساں مستفید ہوتے رہے ۔ اس حکومت نے اسٹیبلشمنٹ کی خوشی کیلئے جتنے بھی اقدامات کئے اس میں یہ سب یکساں حصہ دار تھے ۔ جتنی بھی ناخوشگوار قانون سازی ہوئی ، اس کی پہلے کابینہ منظوری دیتی رہی جس میں بلاول بھٹو ، اسد محمود اور دیگر کے علاوہ اختر مینگل کے نمائندے بھی بیٹھے رہے ۔ اس سیٹ اپ میں این ڈی ایم کے محسن داوڑ بھی خارجہ امور کمیٹی کے چیئرمین تھے جن کا درجہ وفاقی وزیر کے برابر ہوتا ہے۔ یوں اگر کسی کو حکومت کے کسی اقدام پر اعتراض ہوتا تو وہ ہمت کرکے حکومت سے الگ ہوجاتا لیکن مزے لوٹنے کے بعد اب ہر ایک میدان میں آکر کہہ رہا ہے کہ فلاں کام غلط ہوا اور فلاں فیصلے سے نقصان ہوا ۔