کہا جا رہا تھا کہ ہم ڈیفالٹ کر چکے ہیں لیکن اعلان نہیں کیا جا رہا ہے ملک معاشی طور پر تباہ ہو چکا ہے کچھ نابغہ قسم کے دانشور نہیں ’’دانش شور‘‘ یعنی دانش کے اندھے کہہ رہے تھے کہ ہم بنیادی طور پر ٹیکنیکلی ڈیفالٹ کر چکے ہیں لیکن اعلان نہیں کیا جا رہا ہے کیونکہ اس میں کچھ بیرونی طاقتوں کا مفاد ہے۔ عمرانی سیاست کے حامی اپنے امریکہ مخالف بیانیے کو خوب اچھال رہے تھے امریکہ دشمنی کی آگ کو خوب ہوا دے کر پھیلانے کی کاوشیں کر رہے تھے ان کا ٹارگٹ شہباز شریف اور اتحادیوں کی حکومت کو ناکام ثابت کرنا تھا۔ اس مقصد میں شروع شروع میں انہیں کامیابی بھی ملی کیونکہ آئی ایم ایف سے رکی ہوئی قسط کی وصولی کے لئے ان تمام شرائط پر عمل درآمد یقینی بنانا تھا جن پر عمران خان نے دستخط کئے ہوئے تھے یہ قسط نومبر 2021 میں مل جانی چاہئے تھی لیکن عمران خان اپنی نالائقیوں اور نااہلیوں کے باعث طے شدہ فریم ورک کے مطابق معاملات کو آگے بڑھانے میں ناکام نظر آ رہے تھے پھر رواں سال کے پہلے دو تین مہینوں میں یہ نظر آنے لگا تھا کہ عمران خان کی حکومتی معاملات پر گرفت کمزور تر ہوتی چلی جا رہی ہے پھر اپوزیشن بھی اکٹھی ہونا شروع ہو گئی تھی اور ان کا ایک بات پر اتفاق ہو چکا تھا کہ عمرانی حکومت کو چلتا کرنا ہے اختلاف صرف طریق کار پر تھا کہ عدم اعتماد کے ذریعے یا اجتماعی استعفوں کے ذریعے۔ آصف علی زرداری نے عدم اعتماد کی تحریک پر اپوزیشن جماعتوں کے رہنمائوں کو قائل کیا متفق کیا اور پھر اپنی صلاحیتوں کے ذریعے عمران خان حکومت ایوان اقتدار سے رخصت کر دی گئی۔ عمران خان اور ان کے ساتھی ارکان اسمبلی کے استعفے بھی پیش کر دیئے گئے پھر عمران خان نے حسب عادت اور عین توقعات کے مطابق چیخنا چلانا شروع کر دیا۔ فوری انتخابات کا مطالبہ اور اس کو منوانے کے لئے 25 مئی کا دن مقرر کیا۔ اسلام آباد پر دھاوا بولا۔ پھر جو کچھ ہوا وہ ہماری تاریخ کا حصہ ہے۔ عمران خان نے پھر جلسے کرنے شروع کئے۔ نیا ولولہ و جوش پیدا کرنے کی مسلسل کاوشیں کیں۔ 13 اگست کا لاہور میں آزادی جلسہ اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی توقع کی جا رہی تھی کہ کہ وہ کوئی بہت ہی اہم اعلان کریں گے جو حکومت کے لئے مشکلات پیدا کرنے کا باعث ہو گا لیکن عمران خان صاحب حسب سابق اپنی تقریر کے جوہر دکھاتے، پرانی باتیں دہراتے، ایسے ہی جلسے کرتے رہنے کا اعلان کر کے یہ جا وہ جا۔
ان کی منافقانہ پالیسی اب عوام کے سامنے آ چکی ہے ایک طرف وہ امریکہ کے خلاف صف آرا نظر آتے ہیں امریکہ مخالف بیانیہ بڑھاتے نظر آتے ہیں دوسری طرف امریکی سفیر کے ساتھ مبینہ طور پر ملاقات بھی کر چکے ہیں۔ ایک فرم 30 لاکھ ڈالر پر انگیج بھی کر لی ہے جو امریکی اخبارات و ذرائع ابلاغ میں پی ٹی آئی کی امریکہ دوستی اجاگر کرنے اور پی ٹی
آئی کو امریکیوں کے لئے قابل قبول بنانے کا کام کرے گی۔ کتنی بڑی منافقت ہے دوغلی پالیسی ہے۔ بہرحال گزرے 3/4 مہینوں کے دوران شہباز حکومت نے آئی ایم ایف کو منانے اور لائن پر لانے کے لئے جو کچھ کیا اس سے عام آدمی کی معاشی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ ڈالر کی اڑان نے اشیائے صرف اور خورونوش کی قیمتوں کو حقیقتاً پَر لگا دیئے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے نے عام شہری کے لئے مسائل پیدا کئے۔ بجلی، گیس اور دیگر توانائی کے ذرائع کی مہنگائی نے پیداواری مصارف بڑھائے۔ اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ۔ ایسا لگا کہ اتحادی حکومت ناکام ہو گئی ہے۔ شہباز شریف کی ماضی میں اعلیٰ کارکردگی کی باتیں کہیں ہوا ہو گئیں۔ کہا گیا کہ عمران خان کی نالائقی اور ناکارکردگی کا خمیازہ ہے کہ معاملات کو درست کرنے کے لئے سخت اقدامات اٹھانے پڑ رہے ہیں۔ ویسے آپس کی بات ہے مہنگائی، مہنگائی اور مہنگائی نے اتحادی حکومت کی کارکردگی پر سوالیہ نشان اٹھا دیئے ہیں کیونکہ عمران خان کی 44 ماہی حکمرانی کے دوران نااہلی کارکردگی کے ایسے ایسے کارنامے سرانجام دیئے گئے کہ الامان الحفیظ۔ لیکن شہباز شریف حکومت نے عمران خان کی نااہلیوں کی بری یادیں محو کر دی ہیں۔ بہرحال ایسے لگ رہا ہے کہ شہباز شریف کی سخت پالیسیوں کے ثمرات سامنے آنے لگے ہیں مخالفین کا ’’پاکستان ڈیفالٹ کر رہا ہے‘‘ ، ’’پاکستان ٹیکنیکلی ڈیفالٹ کر چکا ہے‘‘ بیانیہ اپنی موت آپ مر چکا ہے۔ ڈالر کی واپسی شروع ہو چکی ہے، پاکستانی سٹاک مارکیٹ پھل پھول رہی ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ ہمارا معاہدہ ہوا ہی چاہتا ہے۔ ہم نے آئی ایم ایف کی طرف سے بھجوائے گئے لیٹر آف انٹینٹ پر دستخط کر دیئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق فنڈ کے ایگزیکٹو بورڈ کا اجلاس 29 اگست کو متوقع ہے جس میں ہمارے معاملات فائنل ہو جائیں گے اس کے ساتھ ہی رکی ہوئی 1.17 ارب ڈالر کی قسط جاری ہو جائے گی اور پھر ہمارے معاشی معاملات ایک ہموار سطح پر آگے بڑھنا شروع ہو جائیں گے۔
سعودی عرب نے ہمیں 3 ارب ڈالر دینے کا وعدہ بھی کر لیا ہے یہ وہ رقم ہے جو ہمارے اکائونٹ میں رکھی گئی تھی تاکہ ہمارے ذخائر کی پوزیشن بہتر ہو عمران خان کی پالیسیوں کے باعث سعودی حکومت نے یہ رقم ہمارے اکائونٹ سے نکلوا لی تھی اب ایک بار پھر اس رقم کی دستیابی ہمارے مالی معاملات میں بہتری کی صورت پیدا کرے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ سعودی عرب ہمیں 100 ملین ڈالر ماہانہ کی بنیاد پر تیل فراہم کرے گا۔ یہ سہولت 10 مہینے تک جاری رہے گی۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات کے اجرا کے بعد دیگر عالمی زری و مالیاتی اداروں کے ساتھ ہمارے رکے ہوئے معاملات ایک بار پھر شروع ہو جائیں گے جس کے باعث ہماری معیشت میں بہتری شروع ہو جائے گی۔
اصل سوال یہ ہے کہ بہتر قومی معیشت کے عام آدمی کی معیشت پر اچھے اثرات کب مرتب ہونا شروع ہوں گے کیونکہ عالمی منڈی میں تیل کی مسلسل گرتی ہوئی قیمتوں کا ابھی تک عوام کو فائدہ نہیں پہنچا ہے تیل 85 ڈالر فی بیرل تک آن پہنچا ہے لیکن عوام کو اس کے ثمرات نہیںمل پا رہے ہیں۔ گزشتہ روز پٹرول کی قیمت میں 6.72 روپے فی لیٹر اضافہ عوام کے ساتھ زیادتی ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ کوئی شخص بڑی بے رحمی کے ساتھ فیصلے کر رہا ہے۔ اسے عوامی مصائب اور تکالیف کا ہرگز احساس نہیں ہے وہ آنکھیں، کان اور دماغ بند کرکے فیصلے کر رہا ہے اور ظاہر ہے یہ شخص شہباز شریف نہیں ہو سکتا۔ یہ وزارت میں بیٹھا کوئی ’’بابو‘‘ ہی ہو سکتا ہے۔ حکمرانوں نے اگر عوامی مشکلات کا حقیقی ادراک نہ کیا تو پھر وہ وقت دور نہیں جب عوام اپنے ووٹ کی طاقت سے ایسے حکمرانوں کو اقتدار سے نکال باہر کریں گے۔ عمران خان اپنے جھوٹے سچے بیانیے کے ذریعے اپنے فین کلب کے ممبران کو چارج کرتے جا رہے ہیں۔ حکمرانوں کے خلاف نفرت کا بیانیہ روز افزوں ہے اگر مہنگائی کے معاملات کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو پھر اکتوبر 2023 بہت دور نہیں ہے جب عوام ووٹ کے ذریعے اپنا فیصلہ سنا دیں گے اور وہی فیصلہ درست اور مبنی بر حقائق ہو گا۔ حکمرانوں کو اس وقت سے ڈرنا چاہئے۔