ایک وقت تھا کہ ہنری کسنجر ہمارے پہلے منتخب وزیراعظم کو عبرت ناک مثال بنانے کی دھمکی دیتا ہے جس پر وزیراعظم اپنے مؤقف سے ہٹنے سے انکاری ہیں۔ گریٹ بھٹو کے دور میں امریکہ بھٹو صاحب سے اتنا ناراض تھا کہ ڈھائی سال وطن عزیز میں اپنا کوئی سفیر مقرر نہ کیا۔ ایک شکست خوردہ قوم، ایک گرتے ہوئے مورال میں مبتلا قوم کی باگ ڈور سنبھالی تو پھر اسلامی دنیا کی قیادت، بے آئین سر زمین کو آئین، ایٹمی پروگرام، ہر شخص کو پاسپورٹ کا حق، بینک سے قرضے لینے اور امپورٹ کرنے کا حق، زرعی اصلاحات جس میں اپنی ہزاروں ایکڑ زمین اور پسندیدہ گھر بھی دے دیا۔ دراصل گریٹ بھٹو کے بڑے کارنامے ان کے دیگر کارناموں جن میں میڈیکل کالجز، تعلیم عام، تعلیمی ادارے، روزگار کے بے پناہ مواقع اندرون اور بیرون ممالک بھی پیدا کرنا، ایٹمی پروگرام، ختم نبوت پر ایمان نہ رکھنے والوں کو غیر مسلم قرار دینا، اسلامی دنیا کو ایک پلیٹ فارم جو کم از کم قرون اولیٰ کے بعد تو نصیب نہ ہوا پر اکٹھا کرنا گریٹ بھٹو کے باقی کارناموں کو پس منظر میں لے گیا۔ ان کے ساڑھے پانچ سالہ دور میں ملک کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔ دنیا کے کسی ملک نے وطن عزیز کو کبھی دھمکی دینے کی جرأت نہ کی ہاں! اگر ایسا ہوا تو وہ گریٹ بھٹو کو دھمکی دی گئی۔ اگر رہنما بڑا اور مقبول ہو تو پھر اس کے ملک کو کوئی دھمکی نہیں دیتا۔ آج امریکہ کیا افغانستان مسئلہ بنا پڑا، ہندوستان جس کی بربادیوں کے مشورے آسمانوں پر بھی جاری ہیں، ہمیں خاطر میں نہیں لاتا، چین تحفظات رکھنے لگا، بین الاقوامی سطح کی تنہائی اور اندرون ملک آئین کا بے توقیر ہونا عوام کا ذلتوں، بے روزگاریوں، بیماریوں، غربتوں، لاچارگیوں کے دلدل میں مسلسل دھنسے چلے جانا اور اس پر وزیراعظم کا بیان کے لوگ اگر برباد ہو گئے ہیں تو اتنی کاریں کیوں امپورٹ ہوئی ہیں۔ یہ وہ وزیراعظم ہے جو ایکسپورٹ کی بات کرتا تھا۔ یہ حکومت تو ہے ہی امیر ترین لوگوں کے لیے اور ان کی نمائندہ جس نے مڈل کلاس تحلیل و ناپید کر دی۔ غریب فقیر کر دیئے اور فقیر جرائم پیشہ کر دیئے۔ اگر سپرنٹنڈنٹ جیل، ڈپٹی کمشنر اور دیگر عہدے بکنے لگیں تو پھر یہی حالات ہوتے ہیں جو چل رہے ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ پاکستان آرمی ایک مضبوط، مربوط اور منظم ادارہ ہے ورنہ یہ حکومت تو وطن عزیز کا کدوکش کر دیتی۔ مجھے حیرت ان لوگوں پر ہے جو آج بھی اس کا دفاع کرتے ہیں۔ اگر، مگر، لیکن کے ساتھ اس حکومت کی طرف سے کی گئی بربادیوں کا جواز پیش کرتے ہیں اور تو اور ایک معروف مولوی صاحب نے بی بی سی کے نمائندے کو زبردست انٹرویو دیا۔ مولوی صاحب سے ایک سوال کیا کہ آپ سب حکمرانوں سے ملے ہیں مگر آپ نے تعریف صرف عمران خان کی ہی کی ہے۔ مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ ”ان سے ملا تو انہوں نے کہا کہ مجھ میں تبدیلی آقا کریمؐ کی حیات طیبہ پڑھ کر آئی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ نوجوان بھی آقا کریمؐ کی زندگی پر عمل کریں“۔
مولوی صاحب کے اس استدلال نے عمران خان کے جلسے جو کنسرٹ ہوا کرتے تھے اور پورے کا پورا پنڈال عمران دے جلسے وچ نچنے نوں جی کردا بہت سے واقعات، وعدے، دعوے، کہہ مکرنیاں یاد آ گئیں اور دوسرے طرف مولوی صاحب کے استدلال پر مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا کہ کسی آدمی کا بکرا گم ہو گیا اس نے ماہر کھوجی کی خدمات حاصل کیں جو بکرے کا کُھرا ڈھونڈتے ڈھونڈتے ایک گھر کے باہر جا کر کھڑا ہو گیا اور اس نے کہا کہ چور اور بکرا یہاں ہیں۔ بکرے کے مالک نے دیکھا تو گھر کے اندر ڈیوڑھی میں چارپائی پر ایک بندہ تلاوت قرآن پاک کر رہا ہے۔ بکرے کے مالک اور موقع پر موجود لوگوں نے کھوجی سے کہا کہ تم غلط کہتے ہو اس کے ہاتھ میں تو تسبیح ہے، زبان پر تلاوت ہے۔ کھوجی نے کہا کہ نہیں میں نسل در نسل کھوجی ہوں بکرا اور چور اسی گھر میں ہیں۔ اس تکرار کے دوران بکرے کی اندر سے بولنے کی مخصوص آواز آ گئی دو چار بار بکرا بولا تو کھوجی نے مالک کی طرف دیکھا بکرے کے مالک نے کہا کہ یہ میرے ہی بکرے کی آواز ہے جس پر ڈیوڑھی گھر کی دہلیز پار بیٹھے ہوئے تلاوت کرنے والے نے کہا کیا زمانہ آ گیا ہے لوگ تلاوت اور تسبیح پر یقین نہیں کرتے اور بکرے کی آواز پر یقین کر رہے ہیں۔ ملک برباد ہو گیا، یہاں تک کہ 12 ارب ڈیم کے بابا رحمتے اور وزیراعظم کے مشترکہ اکاؤنٹ میں تھے ایک دھیلے کی لاگت نہ کی۔دنیا کے آخری تین ممالک میں شمار ہونے لگا، افغانستان ہمارے لیے امریکہ بن گیا۔ بھارت اپنی اوقات بھول گیا، لوگ مفلوک الحال ہو گئے، کسی طرف سے خیر کی کوئی خبر نہیں۔ خلفشار قومی سانحہ بن گیا جو کسی حادثے کی دستک سے کم نہیں اور مولوی صاحب کہتے ہیں اس نے مجھے …… کہا تھا اور وزیراعظم کہتے ہیں جانبداری، ریاکاری، منافقت، جھوٹ، خودنمائی، خودستائشی، خوشامد پسندی، باہمی نفرت، منتقم المزاجی نے ہمیں تنزلی کی راہ میں روشنی سے زیادہ رفتار کے ساتھ مبتلا کر دیا۔ بیوٹی پارلر، خضاب، بالوں کے امپورٹڈ کلر، بالوں کی پیوند کاری، درزیوں اور بیوٹی پارلروں کے بعد خفیہ قوتوں کی بنائی ہوئی ہر شعبہ زندگی کی لیڈر شپ نے برباد کر دیا۔ مگر ہم جانبداری اور ڈھٹائی پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ خدارا کچھ خیال کریں۔ قومی ہم آہنگی، ملکی بقا اور عوام کی زبوں حالی کو اپنی انا، جعلی فکر اور منتقم مزاجی کو سکون کرنے دیں۔ جب تک جانبداری، ڈھٹائی اور باہمی نفرت ہے بھلائی کی کوئی امید نہ رکھے۔
ایک اور استدلال کہ عمران خان کی پیچھے اولاد نہیں ہے جو فائدہ اٹھانے کے لیے ہو شاید مولوی صاحب تاریخ اسلام کی ملوکیت اور سلطنت عثمانیہ کے کروفر سے واقف نہیں ہیں۔ کیا اولاد ہونا جرم ہے۔ مولوی صاحب کو علم ہونا چاہیے جب کوئی والد کو سولی چڑھتا دیکھے اور مرنے کے بعد چہرہ نہ دیکھ سکے۔ کوئی اپنی شہید والدہ کی میت اٹھائے، جب جیل میں بند کسی باپ کے سامنے بیٹی کو گرفتار کر لیا جائے، جلاوطن کر دیا جائے تو والدین اور اولاد یں جیلوں اور بابے رحمتے کی عدالتوں کے سپرد ہوں تو پھر اولاد اور والدین کا کردار ضرور تاریخ کا حصہ بنتا ہے۔
مجھے اشرف شریف بھائی نے کہا کہ بی بی شہید کو راستے سے اس لیے بھی ہٹایا گیا کہ دنیا میں ان کی بات کو سنا جاتا تھا۔ آج عوامی قیادت کو بدنام کرکے بے توقیر کر دیا گیا۔ ہم سچے ہونے کے باوجود اپنا مقدمہ دنیا کے سامنے پیش نہیں کر سکتے۔ ہمیں الفاظ، انداز اور اعتماد کے فقدان کا سامنا ہے۔ ہمیں لیڈر شپ کے فقدان کے بحران کا سامنا ہے ورنہ 40 سال امریکیوں کے لیے لڑ کر اپنا جانی مالی ناقابل تلافی نقصان کر کے بھی آج کٹہرے میں ہیں۔ ہمیں آج واضح نظام حکومت، اقتدار اعلیٰ، نظریے اور قومی اجتماعی فکر کے بحران کاسامنا ہے۔ ہمارے ہمسائے اور دوست ہمارے بارے میں کیوں مشکوک ہو گئے۔ اس لیے کہ منصوبہ بندی، پالیسیوں کے تسلسل کا فقدان تھا۔ غیروں پر بھروسہ کرنے سے ہمارا اقتدار اعلیٰ منقسم ہو گیا۔ امریکہ، سعودیہ، چائنہ، روس تو تھے ہی اب افغانستان بھی برتری کا دعویدار بننے لگا۔ آج بھی جانبداری، حصول اقتدار کی ہوس، ڈھٹائی کو چھوڑ کر قومی ہم آہنگی کی سنجیدہ کوششیں ہو تو دنیا کی کوئی طاقت وطن عزیز کی طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتی ورنہ قدرت اپنا نظام چلانے میں بے باک ہے۔