تحریک انصاف کی حکومت کے تین سال مکمل ہونے کے باوجود عوام کے مسائل کم ہونے کے بجائے بڑھ رہے ہیں۔حکومت بیوروکریسی سے کام نہیں لے سکی جس کی وجہ سے عوام کی مشکلات میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ عوامی مسائل کے حل اور ترقیاتی پراجیکٹس کی بروقت تکمیل میں بیوروکریسی کا اہم رول ہوتا ہے تاہم موجودہ حکومت نے قلیل عرصے میں کئی آئی جیز،چیف سیکرٹریز اور وفاقی سیکرٹریز کو تبدیل کیا جس سے بیوروکریسی کا اعتماد ختم ہو گیا اور اب کام کرنے کو کوئی بھی تیار نہیں ہے جبکہ حکومت نے تین سال میں افسران کی اچھی ٹیم نہیں بنائی جس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔سرکاری افسران حکومت کے احکامات پر عمل درآمد یقینی بناتے ہیں لیکن جب اعلیٰ افسران معیاد پوری کرنے سے پہلے تبدیل ہی کئے جائیں ایسے حالات میں بیوروکریسی کام کرنے کو تیار نہیں ہوتی اس کے برعکس شہباز شریف جب پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے تو انہوں نے صوبے میں ترقیاتی کاموں کا جال بچھا دیا تھا اوربیوروکریسی کی ایک بہترین ٹیم بنائی تھی اور عام وزارتوں میں اچھی کارکردگی کے حامل افسران کو سیکرٹری تعینات کیا تھا اورایمانداری،دیانتداری اور شفافیت کے ساتھ کام کرنے کی تلقین کرتے تھے یہی وجہ ہے کہ لاہور میں میٹرو بس سروس،بجلی کے منصوبے اور ترقیاتی پراجیکٹس مقررہ وقت سے پہلے ہی مکمل کئے اور اس کا کریڈٹ شہباز شریف کو جاتا ہے کیونکہ شہباز شریف افسران کی کارکردگی کو
خود مانٹیر کرتے تھے اور ان سے کام بھی لیتے تھے جبکہ بیوروکریسی کو مکمل اختیارات دیئے تھے اور سیاسی سفارش کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بیوروکریسی شہباز شریف کے ویژن کے مطابق کام کرتی تھی۔
معروف برطانوی مصنف مائیکل باربر نے اپنی کتاب میں بیوروکریسی سے کام لینے کے شہباز شریف کے طریقے کو سراہتے ہوئے لکھا ہے کہ تعلیم کے حوالے سے سیکرٹری سکول اسلم کمبوہ خود قرآن کی تلاوت کرتے تھے اور خود ہی اپنا ریکارڈ ساتھ لاتے تھے کیونکہ شہباز شریف نے یہ ہدایت کی تھی کہ وہ زمین پر ٹھوس نتائج چاہتے ہیں اور کاغذی نتائج انہیں پسند نہیں تھے۔ایک دفعہ اسلم کمبوہ نے مجھے بتایا کہ میں پہلے بہت زیادہ مشکوک تھا اور آخر مصنف کیا چاہتا ہے لیکن آخر میں کمبوہ نے بتایا کہ آپ میرے لئے بہترین وکیل ثابت ہوئے۔انہوں نے بتایا کہ اسلم کمبوہ کے مطابق وزیراعلیٰ کی ہدایت تھی کہ مرد ہو یا خاتون وہ اپنا کام دیانتداری اور محنت سے کرے اور یہ آپ کا ہر مسئلہ حل کرے گا اور دوسروں کو آپ کی قدر دلائے گا۔یہی وجہ تھی کہ تعلیمی میدان میں کمبوہ نے ایسے دیانتدار لوگوں کی ٹیم تیار کی اور انہوں نے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو اس وقت بتایا کہ کون سا کام ہو سکتا ہے اور کون سا نہیں اور جو کام کر سکتے ہیں اور نہیں اور اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ پاکستان میں بیوروکریسی کی نوکری کا یہ طریقہ ہے کہ وہ بعض چیزوں کو نظر انداز کرتے ہیں لیکن شہباز شریف اس کے لئے تیار نہیں تھے اس لئے شہباز شریف نے اسلم کمبوہ کی تمام باتیں مان لیں اور یہی وجہ ہے کہ پنجاب صحیح سمت میں چلا گیا۔2014ء میں شہباز شریف کو یہ بات سمجھ آ گئی کہ تعلیم اور صحت میں پانی کی سپلائی میں اور صفائی کے کاموں میں شہروں اور گاؤں کو یکساں ترقی دی جائے اور اسی وجہ سے انہوں نے نا صرف ایک پالیسی بنائی بلکہ انہوں نے سرکاری ملازمین کی ایسی ٹیم تیار کی اور ایسی لیڈر شپ منتخب کی جو پنجاب کو آگے لے کر جارہی تھی اور اس میں خصوصی طور پر پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کے سربراہ عمر سیف جو جدید ٹیکنالوجی اور خاص کر ڈیٹا جمع کرنے کے ماہر ہیں۔صحت کے لئے علی جان جیسے سیکرٹری کا انتخاب کیا اور انہوں نے مسلسل کسی وقفے کے بغیر دو سال تک کام کیا اور صحت کے نظام میں بہترین کارکردگی سامنے آنے لگی۔اسلم کمبوہ کے بعد پنجاب کے دو سیکرٹری تعلیم نے اس کام کو آگے بڑھایا جس میں اعزاز اختر جو لندن سٹی میں اپنی ایک پرتعش نوکری کو چھوڑ کر وزیراعلیٰ کے ساتھ کام کرنے لگ گئے۔پلاننگ ڈویلپمنٹ کے سیکرٹریز قابل ذکر ہیں۔ مصنف کے مطابق صحت،تعلیم اور پانی اور صفائی کا نظام ہر جگہ نظر آنے لگا۔لاہور میں نئے ٹرانزٹ سسٹم سے ٹریفک کے مسائل حل ہونے لگے۔سکولوں میں اساتذہ کی حاضری نوے فیصد تک جا پہنچی۔95فیصد پرائمری سکول کے بچے اور بچیاں سکولوں میں داخل ہونے لگے اور پنجاب ترقی کے راستے پر گامزن ہو گیا اور یہی وجہ تھی کہ امن و امان پر زیادہ توجہ دی گئی اور ایک وقت ایسا آیا کہ 2017ء میں شہباز شریف کے دور میں لاہور میں لندن سے دہشت گردی کے واقعات کم ہونے لگے اور یہ سب کچھ اس وقت ممکن ہے کہ لیڈر شپ کی صلاحیت کتنی ہے اور وہ اپنے ساتھ کتنے با صلاحیت لوگوں کوجمع کر سکتا ہے۔