’’روک سکو تو روک لو ۔۔سے ۔۔ مجھے کیوں نکالا‘‘ تک

17-Aug-17

حضرت علیؓ کا فرمان ہے کہ ’’کفر کی حکومت چل سکتی ہے مگر ظلم کی حکومت نہیں چل سکتی ‘‘۔!

مولاِ کائناتؓ کا یہ فرمان موجودہ حکومت پر سچ ہوتا نظر آ رہا ہے۔ لندن فلیٹس، اقامہ اور آف شور کمپنیاں جس کی وجہ سے نواز شریف صاحب کو گھر جانا پڑا یہ کوئی آج کی بنائی ہوئی نہیں ہیں۔ یہ تو خدا کی طرف سے شریف خاندان کو پکڑ ا?ئی ہے کہ یہ اب منظرِ عام پر آ گئیں اور 2014 سے ہر سیاسی بہران کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے والے میاں نواز شریف کو گھر جانا پڑا۔ سیاسی مخالفت چاہے جتنی بھی مگر نون لیگ کی حکومت میں ماڈل ٹائون میں جو قیامت برپا ہوئی وہ شاید چشمِ فلک نے اس سے پہلے اس پاک سر زمین پر نہ دیکھی ہو۔ سو سے زائد لوگوں کو ایسے گولیوں سے بھونا گیا جیسے وہ انسان ہی نہ ہو ں ۔ اتنا ظلم تو شاید بھارتی فوج کشمیریوں پر بھی نہ کرتی ہو جتنا ہمارے پنجاب پولیس کے جوانوں نے اپنے ہی شہریوں پر کیا۔ حیرت کی بات کہ شیر جوان بہادر پنجاب پولیس کو عورتوں پر بھی رحم نہ آیا اور دو خواتین کو منہ پر گولیاں مار کے قتل کر دیاجن میں ایک عورت حاملہ بھی تھی۔ نون لیگ کے تیس سالہ دورِ حکومت میں اس سے بڑا اور اس نوعیت کا کوئی سانحہ نہیں ہوا ہو گا۔

یہ سب ہوا کیوں؟ اس کے پیچھے مقصد کیا تھا؟ اس پر پہلے بہت لکھا جا چکا ہے۔

مجھ سمیت ساری عوام کو ایسا لگ رہا تھا کہ میاں نواز شریف  پانچ سال پورے کرنے والے پہلے وزیر اعظم بننے والے ہیں۔ لیکن وہ بھی تاریخ نہ بدل سکے اور نا اہل ہو کر گھر بیٹھ گئے،۔ حالانکہ پانامہ لیکس میں جو بھی انکشاف ہوئے تھے وہ برسوں پہلے کے کارنامے تھے جو اچانک سامنے آگئے۔

اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے۔ جب وہ کسی کی پکڑ کرتا ہے تو پھر اس کے سامنے فرعون کی طاقت اور قارون کی دولت بھی روئی کا پہاڑ ثابت ہوتی ہے۔

جب پانامہ کے ملزمان جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہو رہے تھے تو تب ان کے لہجے میں تکبر و غرور واضح نظر آ رہا تھا وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ شاید اس بار بھی ہمیشہ کی طرح انصاف کو روند دیا جائے گا۔یہ عدالتیں تو صرف غریب عوام کو سزا دینے کیلئے ہیں حاکم وقت کو پکڑنے کی ان میں کہاں جرات ہے۔ ڈیل ڈیل کا رونا رونے والے شاید یہ سمجھ رہے تھے کہ اس بار بھی کسی ڈیل کے نتیجے میں وہ بڑی آسانی کے ساتھ مظلوم و بے قصور ثابت ہو کر اگلے الیکشن میں عوام کی ہمدردیاں حاصل کر کے ایک بار پھر برسرِ اقتدار آجائیں گے۔

مریم نواز کی وہ بات جو انہوں نے جوڈیشل اکیڈمی کے باہر کھڑے ہو کر کی کہ روک سکتے ہو تو روک لو۔ وہ شاید یہ سوچ بیٹھی ہوں گی کہ دولت وہ چیز ہے جس سے ہر انصاف کا ضمیر خریدیا جا سکتا ہے مگر اس بار قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ' روک سکو تو روک لو ' کا نعرہ بلند کرنے والوں کو قدرت نے روک لیا۔اور پھرچشمِ فلک نے غرور و تکبر خاک میں ملتے دیکھا اور حاکمِ وقت کو گھر سے بے گھر ہونا پڑا۔ میاں نواز شریف کو ہر وہ بات منہ پر آئی جو وہ مخالفین کے بارے میں کیا کرتے تھے جن کو اے سی والے کنٹینر کے طعنے دیتے تھے پھر میاں صاحب کو اے سی والے کنٹینر میں اپنے کارکنان سے مخاطب ہونا پڑا۔

میاں صاحب فرماتے تھے ہم سڑکیں بنائیں گے آپ ماپتے جائیں گے اور پھر میاں صاحب کو اتنی طویل سڑک ماپنی پڑی۔

یہ قدرت کا انتقام نہیں تو اور کیا تھا؟ میاں صاحب اب شاید سب کچھ آپ کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ وہ بچی جو چِلا چِلا کر کہتی تھی کیوں مارا میری ماں کو؟ اس کا جواب آپ اور آپ کا قانون تو نہ دسکا مگر قدرت نے آپ کو وہ وقت دیکھا دیا ہے کہ آپ بھی پوچھتے پھریں " کیوں نکالا مجھے"؟

بلاگ لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہے۔نیونیوز نیٹ ورک کا بلاگر کی رائے اور نیچے آنے والے کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

احمد حسن نوجوان صحافی اور بلاگر ہیں

مزیدخبریں