پشاور :محکمہ زراعت خیبرپختونخوا میں 45 کروڑ روپے کے سامان کی خریداری کے عمل میں سنگین بے ضابطگیوں اورطریقہ کار کی خامیوںکا انکشاف ہوا ہے ۔ٹینڈر کی منظوری کے دوران ٹینڈر دستاویزات اور خیبر پختونخوا پبلک پروکیورمنٹ اتھارٹی(کیپرا) کےقانون کی خلاف ورزی کی گئی ۔
اطلاعات کے مطابق خیبر پختونخوا پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی (کیپرا) نے محکمہ زراعت کو ہدایت کی ہے کہ وہ ٹینڈر کا ازسر نو جائزہ لے۔
کیپرا کو مختلف بولی دہندگان کی جانب سے شکایات موصول ہوئیں کہ ڈی جی ایگریکلچر ایکسٹینشن انضمام شدہ اضلاع نے اکتوبر 2020 میں مختلف اشیا
کی خریداری کے لئے 450 ملین روپے کا اشتہار دیا ہےلیکن ٹینڈر کا عمل غیر قانونی طورپر مکمل کیاگیا جس پر کیپرا نے کارروائی کرتے ہوئے احکامات جاری کئے ۔
ایگریکلچر کنٹریکٹرز ایسوسی ایشن خیبر پختونخوا کے چیئرمین سمیع اللہ بنگش نےبتایا کہ کیپرا کے حکم امتناعی کے باوجود 45کروڑ روپے کی رقم نکالی گئی ۔ ٹھیکہ کے لئے 38کنٹریکٹرز نے ٹینڈر جمع کرایا جبکہ محکمہ زراعت ضم اضلاع نے37کو تیکنکی طورپر نااہل کرکے ایک کمپنی کو من پسند ریٹ پر ٹھیکہ دے دیا جس سے قومی خزانے کو بھاری نقصان پہنچا ہے۔
ڈائریکٹر جنرل زراعت ضم شدہ اضلاع عابد کمال نے بتایا کہ چند مفاد پرست ٹھیکیدار وں نے پچھلے کئی سال سے سپلائی کی فراہمی پر اجارہ داری قائم کررکھی تھی اور اس مرتبہ شفاف ٹینڈرپر سیخ پا ہیں۔ ٹھیکیدار پچھلی سپلائز میں گھپلوںپر ہونے والی انکوائروں سے بچنے کے لئےاوچھے ہتھکننڈوں پر اتر آئے ہیں۔
22اکتوبر 2020 کو ہونے والے ٹینڈر شفاف طریقہ سے کھولے اوربعض نام نہاد ٹھیکیداروں کی غلط بیانیاں سامنے آئیں۔ نام نہاد چیئرمین کی فرم کے خلاف بھی انکوائری چل رہی ہے اور اسے دھوکہ دہی کا مرتکب پایا گیا ہے۔
کیپرا نے محکمے کو ٹینڈر کا ازسرنو جائزہ لینے کی ہدایت کی ہے جس پر کمیٹی نے کام کیا اور اپنی رپورٹ کیپرا کو بھجوادی ہے جس میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ۔انھوں نے کہا کہ حکم امتناع ختم ہونے کے بعد پراجیکٹ کے فنڈز جاری کئے گئے ۔بعض عناصر موجودہ حکومت کے انضمام شدہ اضلاع میں ترقیاتی سرگرمیوں کو سبوتاژ کرنے کی سازش کررہے ہیں تاکہ ترقیاتی عمل متاثرہو۔
دستاویزات کے مطابق کیپرا نے ٹھیکیداروں کی اپیل منظور کرتے ہوئے تحقیقات کے لئے ٹیکنیکل اسسٹنٹ کمیٹی تشکیل دی۔ ٹیکنیکل کمیٹی کی پورٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹینڈر دستاویزات اتھارٹی کےمروجہ قوانین کے مطابق نہیں تھے ۔
شکایات کے ازالے کے لئے قائم کمیٹی بھی قانون کے مطابق تشکیل نہیں دی گئی کمیٹی کا سربراہ محکمے کا انتظامی افسر نہیںہوسکتا تحقیقات کے دوران یہ بات بھی نوٹ کی گئی کہ محکمہ نے ٹینڈر درجہ بندی رپورٹ تمام بولی دہندگان کو فراہم نہیں کی جس کے باعث شکایات کنندہ معاملات سے لاعلم رہا اور کوئی سوال نہیں اٹھا سکا ۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ محکمے کا مذکورہ عمل کیپرا کے ایکٹ کی روح کی خلاف ورزی اور شفافیت ، انصاف اور صحت مند مقابلے کی صریحا ًنفی تھی ۔ بولی دہندگان سے پے آرڈر کی شکل میں زرضمانت وصول کرنا بھی اتھارٹی کے جاری کردہ ضوابط کی خلاف ورزی ہے۔ ٹینڈر ز کی ایویلویشن رپورٹ نقائص اوربے ضابطگیوں سے بھری ہوئی ہے ۔
ایک کمپنی ایم ایس کلائمیکس سیڈ کو ایف ایس سی اینڈ آرڈی کے نمبر نہ ملنے پر نااہل ہونا چاہیے تھا لیکن اس کے باوجود کمپنی کو رعایت دی گئی ۔ایک ہی آئٹم کے لئے مختلف کمپنیوں کو مختلف نمبر دینا کیپرا قانون کی خلاف ورزی ہے ۔
دو کمپنیوں ایم ایس کلائمیکس سیڈ اور ایم ایس نارتھ سیڈ کو لازمی دستاویزات کی عدم موجودگی کے باوجود بولی میں شامل کیا گیا اوران کی مالی بولیاں کھولی گئیں ۔ ایم ایس حاجی نرسری فارم ، ایم ایس سلیم نرسری ٗ ایم ایس پختونخوانرسری کو ایف ایس سی اور آر ڈی کےمقررکردہ نمبر نہیں دیئے گئےلیکن انھیں نااہل کرنے کی بجائے ان کی بھی مالی بولیاں کھولی گئیں ۔
درخواست گزاروں نے دلائل کے دوران بتایا کہ ان کے کاغذات مکمل تھے لیکن محکمے نے انھیں نظرانداز کیا اور مذکورہ نمبر فراہم نہیں کئے ۔ٹیکنیکل اسسٹنٹ کمیٹی نے سفارش کی کہ محکمہ ٹینڈز کی جانچ پڑتا ل کے لئے نئی خریداری کمیٹی تشکیل دے کر تمام معاملات کا ازسرنو جائزہ لے تاہم کمیٹی میں کوئی بھی ممبر پرانی کمیٹی سے شامل نہ کیا جائے ۔