پشاور: آئی جی خیبر پختونخوا پولیس صلاح الدین محسود نے مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی واقعے پر میڈیا بریفنگ دیتے ہوئے کہا مشتعل طلبہ کے خلاف لاٹھی چارج کر کے 59 طلبہ کو گرفتار کیا ان میں ایسے طلبہ تھے جن کے کپڑے خون آلود تھے۔
ان کا مزید کہنا تھا یونیورسٹی میں میں طلبہ، گاڑیوں کی تلاشی لی گئی جس کی وڈیو سوشل میڈیا پر ہے۔ پولیس نے ایف آئی آر میں 20 افراد کو نامزد کیا اور نامزد میں سے 16 ملزمان گرفتار ہو چکے ہیںٕ۔ مزید تفتیش کے دوران 11 دیگر ملزمان کی شناخت کی گئی جن میں سے 6 کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
آئی جی خیبر پختونخوا نے بتایا آر پی او اور دیگر پولیس ملزمان معاملے پر روز میٹنگ کرتے ہیں۔ ایسے ٹھوس شواہد نہیں ملے کہ عدالتی کارروائی ہو سکے۔ واقعے کے بعد ایف آئی اے سے مدد مانگ لی ہے اور سائنسی خطوط پر کیس کی تفتیش کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا سوشل میڈیا ویب سائٹس پر بہت سی ویڈیوز سے متعلق ماہرین کی رائے درکار ہے۔ سوشل میڈیا پر بہت کچھ چل رہا ہے زیادہ تر جھوٹ پر مبنی ہے۔ پولیس نے تفتیش میں بہت حد تک کامیابی حاصل کر لی ہے کیونکہ 26 گرفتار ملزمان سے بہت معلومات ملی اور تفتیش درست سمت میں ہے۔
آئی جی خیبر پختونخوا پولیس صلاح الدین محسود نے کہا فیکلٹی کا گمان تھا کہ دونوں لڑکے یونیورسٹی آئے ہی نہیں یہ اور بات ہے کہ مشال خان ہاسٹل میں پائے گئے۔ واقعے سے پہلے یونیورسٹی میں انکوائری چل رہی تھی، مقتول کو صفائی کا موقع نہ مل سکا۔
انہوں نے کہا ملزمان کو ملزمان ہی سمجھوں گا سیاسی وابستگی پر نہیں جاؤں گا۔ تفتیش میں مشال،عبداللہ، زبیر پر کوئی الزام ثابت نہیں ہوا۔ کل سپریم کورٹ میں تمام تفصیلات جمع کرائیں گے۔
یونیورسٹی میں نظم و ضبط پر لڑکوں کے مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ پچھلے دنوں دہشت گردی کے واقعات پر نفری کی درخواست دی گئی تھی۔ طے کیا گیا یونیورسٹی انتظامیہ اپنے سیکیورٹی گارڈز بھرتی کرے گی۔
واضح رہے گزشتہ دنوں عبدالولی خان یونیورسٹی میں مشتعل طلبا نے مشال خان کو قتل کر دیا تھا۔ مشال خان کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق اس کی موت گولی لگنے سے ہوئی ہے۔ مقتول کے جسم پر 2 گولیوں کے نشان پائے گئے۔
نیو نیوز کی براہ راست نشریات، پروگرامز اور تازہ ترین اپ ڈیٹس کیلئے ہماری ایپ ڈاؤن لوڈ کریں