اسلام آباد: سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی رہنما شہباز گل پر تشدد اور جسمانی ریمانڈ کے خلاف درخواست کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی ہے۔
سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز الااحسن کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے درخواست کی سماعت کرتے ہوئے وفاقی اور تفتیشی افسران کو نوٹسز جاری کر دیے اور عدالت نے اس مقدمے کے تفتیشی افسران کو آئندہ سماعت پر ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا ہے۔
سماعت کے دوران بینچ کے رکن جسٹس مظاہر اکبر نقوی نے درخواست گزار شہباز گل کے وکیل سلمان صفدر سے استفسار کیا کہ ان کا کیس کیا ہے؟ بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ شہباز گل نے کہا کیا تھا؟ بینچ کے ایک اور رکن جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ جو ملزم زیر حراست ہوتا ہے کیا اس کا ریمانڈ لینا ضروری نہیں ہوتا؟
جسٹس مظاہر نقوی نے سوال کیا کہ اس مقدمے میں ملزم سے کیا چیز ریکور کرنا تھی۔ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کا کہنا تھا کہ کیا پولیس نے شہباز گل سے زبان ریکور کرنا تھی جس سے وہ بولا تھا؟ شہباز گل سے جو ریکوری کی گئی اس کا کیس سے کوئی تعلق ہی نہیں۔
سماعت کے دوران جسٹس مظاہر نقوی کا کہنا تھا کہ تشدد کے خلاف شہباز گل کو متعلقہ فورم سے رجوع کرنا ہو گا۔ انھوں نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے تشدد کے خلاف متعلقہ فورم سے رجوع کیا؟ہ شہباز گل کو متعلقہ فورم پر درخواست دائر کرنے سے کس نے روکا ہے؟
بینچ کے رکن جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا سابق حکمراں جماعت پی ٹی آئی حکومت میں کسی پر پولیس نے تشدد نہیں کیا؟ جس پر درخواست گزار کے وکیل سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ پولیس تشدد کے واقعات کم ہی سامنے آتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ملکی تاریخ کا سب سے متنازع ریمانڈ شہباز گل کا دیا گیا۔
سماعت کے دوران جسٹس مظاہر اکبر نقوی نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کیا کہ ان کے موکل کے خلاف مقدمہ کیوں درج کیا گیا جس ہر سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ شہباز گل ننے ایک بیان دیا تھا۔ جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیے کہ شہباز گل نے بیان نہیں دیا تھا بلکہ ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو دیا تھا۔
جسٹس مظاہر نقوی نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کیا کہ متعقلہ عدالت نے شہباز گل کا جسمانی ریمانڈ کیوں دیا تھا۔ وکیل سلمان صفدر نے اس سوال کے جواب میں جج سے سوال کیا کہ وہ ہی بتا دیں کہ متعقلہ جج نے شہباز گل کا جسمانی ریمانڈ کیوں دیا تھا؟
اس سوال پر جسٹس مظاہر نقوی نے وکیل سلمان صفدر کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ کیا جج سے ایسے بات کی جاتی ہے۔ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کا کہنا تھا کہ مجسٹریٹ قیدی کے حقوق کا ضامن ہوتا ہے آپ کو اتنا بھی علم نہیں۔
انھوں نے سوال کیا کہ کیا ضابطہ فوجداری کا اطلاق سپریم کورٹ پر ہوتا ہے؟ جس پر شہباز گل کے وکیل نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ پر ضابطہ فوجداری کا اطلاق ہوتا ہے۔ جسٹس مظاہر نقوی نے شہباز گل کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا وکیل صاحب، سپریم کورٹ پر ضابطہ فوجداری کا اطلاق نہیں ہوتا۔
جسٹس مظاہر نقوی نے درخواست گزار کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا آپ کو جسمانی ریمانڈ دینے کے طریقہ کار اور مقصد کا ہی نہیں پتہ۔ انھوں نے کہا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ درخواست گزار کے وکیل تیاری کر کے نہیں آئے۔