عمومی سماجی رویہ تو یہی ہے کہ والدین کی عزت دل کی اتھاہ گہرائیوں سے کی جاتی ہے،ہر معاشرے میں البتہ ماں کوخاص مقام حاصل ہے،اسکی شان میں گستاخی کو گناہ کبیرہ سمجھا جاتا ہے،جو لوگ اس کے مرتکب ہوتے ہیں انھیں کبھی بھی قدر کی نگاہ سے دیکھا نہیں جاتا،جب کوئی سنگدل بیٹا اپنی والدہ کے ساتھ ناروا سلوک کرتا ہے تو ہر مہذب فرد اسے برُا بھلا کہتا ہے، اس کے باوجود میڈیا میں ایسی دل خراش خبریں شائع ہوتی ہیں کہ یقین نہیں آتا کہ مسلم معاشرہ میں ایسا بھی ممکن ہے،مگر یہ ہوتا ہے۔
ماں کسی نعمت سے کم نہیں، اسے یہ مقام اس لئے حاصل ہے کہ وہ پیار کرنے والی ہستی ہے،اس کا دل سمندر سے گہرا،آسمان سے زیادہ وسیع ہوتاہے، وہ اولاد سے نفرت نہیں کر سکتی،وہ پیار کا مجموعہ ہے،وہ غلطیوں کے باوجود اولاد کو سینے سے لگاتی ہے،وہ کھلے دل کی شخصیت ہوتی ہے اور غلطیوں کو معاف کرتی ہے یہی اسکی اعلیٰ ظرفی ہے،اس کا لہجہ شفقت سے بھرپور ہوتا ہے وہ بڑی رحم دل ہوتی ہے،ماں بلکتے بچے کو دیکھ کر تڑپ جاتی ہے،اپنی اولاد کو دیکھ کر ایک پاؤں پر کھڑی ہو جاتی ہے۔ انسانی معاشرہ میں سوتیلی ماں کا کردار بھی زیر بحث رہتا ہے،تمام تر سنگ دلی کے باوجود ماں سے کوئی مامتا چھین نہیں سکتا،اس کا دل کسی کی اولاد کے لئے بھی دھڑکتا ہے۔اس کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔
تمام تر اچھی خوبیوں کی حامل ماں کو اس لئے ریاست سے تشبیہ دی جاتی ہے،کہ ریاست گندے میلے،مٹی میں لتھڑے بچوں کو اپنی آغوش میں لے لیتی ہے،مگر جس ریاست میں ماں بے آبرو ہو جائے،ظلم قانون بن جائے،جبر عام ہو، عدل مر جائے تو وہ ریاست ماں کے جیسی کیسے ہو سکتی ہے؟جس طرح ماں کے سامنے جھوٹ نہیں بولا جاسکتا، اس کو دھوکہ نہیں دیا جاسکتا،اس کے ساتھ نا انصافی نہیں کی جاسکتی، اس کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچائی جاسکتی،اسکے اثاثہ جات کو لوٹا نہیں جاسکتا، جب تلک ریاست کے ادارے اس کے ساتھ وہی اخلاقی معیار رکھتے ہیں جو کسی ماں کے ساتھ رکھا جاتا ہے تو پھر وہ ملک ریاست ہو گی ماں جیسی کا سنہرا روپ دھار لیتا ہے۔ سیلاب زدگان کی ٹی وی سکرینوں، سوشل میڈیا پر آمدہ تصاویر سے اندازہ ہوتا ہے کہ ریاست ماں جیسی نے ان شہریوں سے سوتیلا سلوک کیا ہے،ان کے چہروں پر جھریاں،یہ نحیف،کمزور لاغر مردو خواتین شکوہ کناں ہیں کہ
ہماری ماں جیسی وہ ریاست کہاں ہے جس نے ہمارے ساتھ امتیازی سلوک کیا ہے، ہمیں بنیادی حقوق سے محروم رکھاہے، ایک سیلاب نے ہم سے ہماری چھت چھین لی ہے، ہم بے یارو مدد گار اپنی بہنوں، بیٹیوں، بیواؤں کے ساتھ سے سر بازار آن پڑے ہیں،ہمارا سب کچھ لٹ گیا ہے،ہمیں اپنے بچوں کے مستقبل سے پہلے اپنے روزگار کی فکر لاحق ہے،یہ سوچ کر کلیجہ منہ کو آتا کہ کہ کچے گرے پڑے گھروندوں میں واپس کیسے جائیں گے، اگر زندگی کی گاڑی کو چلانے کی کوشش کر بھی لیں بعید نہیں کہ اگلے سال پھر اس عذاب میں مبتلا نہ ہو جائیں، ماں جیسی ریاست میں ہمارا مقدر ہی ایسا کیوں لکھا ہے،بڑے بڑے محلات کے مکیں،حد نظر تک رقبہ جات کے مالکان نے اس ماں کی آخر کیا خدمت کی ہے کہ وہ ہماری طرح کے دُکھ اُٹھانے سے محفوظ رہے ہیں؟
ہم نے ریاست ہوگی ماں جیسی کے ساتھ کون سا جرم کیا ہے، کونسی گستاخی کے مرتکب ہوئے ہیں جس کی سزا پا رہے ہیں؟ کیا ہمارے ناروا سلوک کی مستحق ہماری اولادیں بھی ہیں، انھیں یہ سزا کیوں مل رہی ہے؟کیا بنیادی حقوق کی عدم فراہمی کی روایت نسل نو تک یونہی منتقل ہوتی رہے گی، یہ وہ سوالات ہیں جو گہرے پانیوں میں گھرے سیلاب زدگان اپنے آپ سے پوچھ رہے ہیں۔
ریاست مجموعہ ہے ادارہ جات کا،جس میں عدلیہ، مقننہ، انتظامیہ شامل ہے سب مل کر ریاست بناتے اور چلاتے ہیں، آپ انھیں ریاست کے بیٹے بھی کہہ سکتے ہیں،ان کے ہاتھ ہی میں ریاست ماں جیسی کی عزت اور توقیر ہے، انھوں نے ہی اپنے بہترین کردار سے اس کا وقار بلند کرنا ہے،اسے عالمی برادری میں اونچا مقام دلانا ہے، اسکی عزت ناموس کی حفاظت کرنی ہے،اسکو دوسروں کے ظلم سے محفوظ رکھنا ہے۔دنیا میں ریاست ہوگی ماں جیسی کی بہت سی ریاستی مثالیں موجود ہیں،جو واقعی ماں کی طرح اپنے بچے سمجھ کرشہریوں کی پرورش کرتی اور تحفظ فراہم کرتی ہیں۔
لیکن زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ ہماری ریاست ماں جیسی کے بچے نافرماں ثابت ہوئے ہیں،انکی سنگ دلی نے ریاست ماں جیسی کے دل سے رحم دلی چھین لی ہے،دنیا بھر میں اس کو مقروض کرکے اس کی آبرو ریزی داؤ پر لگادی ہے،ناانصافی کرنے پر اس کو مجبور کیا گیا ہے، اس کے سامنے انسانوں کو قتل کر دیا جاتا ہے مگر قانون خاموش رہتا ہے،اس کے باسیوں کو تعلیم سے محروم رکھا جاتا ہے کسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی،بھوک اور بیماری سے بچوں کو بلکنے دیا جاتا ہے کوئی اس کا نوٹس نہیں لیتا، اس کے ناخلف بچوں کے رویہ کی وجہ سے لوگ اسلئے اس پر آوازیں کستے ہیں،یہ بیچاری اپنی ضرویات پوری کرنے کے لئے در در بھیک مانگ رہی ہے۔ عالمی برادری میں اس کا تعارف ایک بدعنوان ریاست کا سا ہے،بچوں کی لاپروائی نے اس کو عمومی ترقی سے محروم کر دیا ہے، اس تلخ حقیقت کے باوجوداسکی خواہش ہے کہ اس میں اچھی ماں جیسی خوبیاں پھر سے عود آئیں یہ ر عایا نما بچوں کے چہروں پر خوشی لا سکے، سب میں مساوی طور پر وسائل کی تقسیم کی یہ آرزومند ہے،تاکہ کوئی بھی ماں جیسی ریاست میں بھوکا نہ سوئے،کسی بھی ناگہانی آفت میں وہ بے گھر نہ ہوں، بیماریوں کا سامنا نہ کرنا پڑے،انھیں روزگار کے لئے ہجرت کا دکھ نہ اٹھانا پڑے، بنیادی خوراک جیسی نعمت بچوں کو میسر ہو، ماں کاگھر خوشیوں کا آنگن ہو، مگر اس کا خواب اب تلک شرمندہ تعبیرنہیں ہو سکا ہے۔
اسکے بیٹے ناخلف اور سنگدل نکلے، یہ باہم مفادات کے اسیر ہو گئے،ان کے درمیان احترام کا رشتہ بتدریج ختم ہوتا چلا گیا،اس ناچاقی نے ریاست ہوگی ماں جیسی کے گھر کا امن اور سکون چھین لیا،سنگدل بیٹوں نے اسکے وقارکوخاک میں ملا دیا،انکی باہم لڑائی کا فائدہ دوسرے مخالفین بھی اٹھانے لگے،ماں جیسی ریاست کے صوبے جو بھائیوں جیسا درجہ رکھتے ہیں ان میں قابل رشک تعلقات نہ ہونے کا سبب ریاست کے ادارہ جات ماں جیسی کے بیٹے ہیں۔
ہر شہری کی اولین خواہش ہے کہ انکی ریاست ماں جیسی ہو ان کے ساتھ یکساں سلوک روا رکھے کوئی امتیاز نہ برتے، سب کو ایک ہی آنکھ سے دیکھے،کسی بھائی، بیٹے میں کوئی فرق نہ رکھے،وہ اِسکی چھاؤں میں پناہ لینے کوعافیت اور نعمت سمجھتے ہیں،وہ اس کے خلاف کسی ناروا سلوک کا سوچ بھی نہیں سکتے، لیکن اس کے نااہل بیٹے ماں جیسی ریاست کے خلاف بولنے پر مجبور کرتے ہیں، مگر وہ ریاست ہوگی ماں جیسی سے رحم دلانہ رویہ، مساویانہ شفقت،نرم جوئی کی توقع رکھتے اور سمجھتے ہیں کہ جب تلک ریاست ماں جیسا رویہ نہیں اپنائے گی، یہاں مضبوط جمہوریت، پائیدار امن، فلاحی ریاست کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو گا، مگر اسکی راہ میں حائل اس کے سنگدل بیٹے جو ریاستی ادارے ہیں، جن کی لاپروائی نے ہر شہری کو ریاست ماں جیسی سے بدظن اور دور کر رکھا ہے، اور انکے اس رویہ کی وجہ سے عام شہری کو مصیبتوں اور مشکلات کا سامنا ہے جن کا تصور ایک مشفق ریاست ہو گی ماں جیسی کی موجودگی میں قطعی محال ہے۔