بھارت کے انتہا پسند ہندوؤں کی نماز پڑھنے پر مسلمانوں کو ہراساں کرنے کی ایک اور ویڈیو منظر عام پر آگئی۔ مسلمانوں کو ہراساں کرنے اور ویڈیو بناکر سوشل میڈیا پر وائرل کا واقعہ بھارتی ریاست اترپردیش کے شہر شاہ جہاں پور میں پیش آیا۔انتہا پسند ہندوؤں نے اجمیر شریف جانے والے مسلمانوں کو سرعام نماز پڑھنے پر زمین پر بٹھایا اور کان پکڑوا پر معافی منگوائی جس کی ویڈیو بھی وائرل ہورہی ہے۔
اس سے قبل بھارت کے شہرلکھنو کے ایک مال میں نماز پڑھنے پر ہندو انتہاپسند آپے سے باہر ہو گئے اورنمازیوں کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دیں۔ جس سے علاقے میں کشیدگی پیدا ہو گئی ہے۔ ہندو انتہاپسندوں سے خوف زدہ مال کی انتظامیہ نے اعلان کیا کہ انہوں نے مسلمانوں کو مال میں نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ مال انتظامیہ نے نمازیوں کے خلاف مقدمہ بھی درج کرا دیا۔ ہندوانتہاپسندوں نے نمازپڑھنے کے جواب میں مال کے اندر ہندو مذہبی تقریب کرنے کا اعلان کیا۔ مال کا افتتاح چند روز قبل اترپردیش کے مسلمان دشمن ہندو انتہاپسند وزیراعلیٰ آدیتیہ ناتھ نے کیا تھا۔ یہ تو عوامی جگہوں میں کھلے عام نماز پڑھنے پر بھارتی سرکار اور انتہا پسند ہندوؤں کا رویہ ہے، بھارت میں گھروں میں نماز پڑھنے پر بھی پابندی عائد ہو رہی ہے۔ بھارتی ریاست اترپردیش کے ضلع مراد آباد کے گاؤں دلہے پور میں گھر کے اندر محلہ داروں کی باجماعت نماز کی ادائیگی پر 26 مسلمان شہریوں کے خلاف مقدمہ درج کرلیا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گاؤں میں کوئی مسجد نہیں ہے، اور گھر میں نماز کی ادائیگی پر بھی گاؤں کے رہائشیوں نے اعتراض کیا ہے۔
مقامی شہری چندر پال سنگھ نے درخواست میں موقف اپنایا کہ ’یہ لوگ باجماعت نماز کے ذریعے لوگوں میں نفرت اور دشمنی پھیلا رہے ہیں۔‘ مقامی ہندو آبادی نے اعتراض اْٹھایا کہ علاقے میں مسلمانوں کے صرف دو گھر ہیں اور کوئی مسجد بھی نہیں تو
نماز جمعہ کے لیے اتنے افراد کہاں سے جمع ہوگئے۔ نمازیوں کے خلاف مقدمہ انڈین پینل کوڈ کے سیکشن 2-505 کے تحت نفرت اور دشمنی پھیلانے کے جرم میں درج کیا گیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ شہریوں نے بڑی تعداد میں ایک جگہ نماز کی ادائیگی کی اجازت نہیں لی تھی۔جنونی ہندوؤں کی جانب سے ڈرانے دھمکانے اور مقدمہ درج کرانے کے بعد ان گھروں کے مالکان اپنا سارا سامان چھوڑ کر محفوظ مقام پر منتقل ہوگئے جب کہ مشتعل ہندو ان گھروں کے آس پاس منڈلا رہے ہیں۔
مسلم رہنما اسدالدین اویس نے گھر میں نماز کی ادائیگی کرنے والے شہریوں پر مقدمہ درج کرنے پر سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے، انہوں نے کہا کہ کیا اب بھارت کے مسلمان گھروں میں بھی نمازنہیں پڑھ سکتے۔ کیا اب نماز پڑھنے کے لیے بھی حکومت یا پولیس سے اجازت لینا ہوگی؟ نریندر مودی کو اس کا جواب دینا چاہیے، کب تک ملک کے مسلمانوں کے ساتھ دوسرے درجے کے شہری جیسا سلوک کیا جائے گا؟۔ معاشرے میں مذہبی منافرت اس حد تک پھیل چکی ہے کہ اب گھروں میں نمازپڑھنے سے بھی لوگوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے بھی ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ’مجھے یقین ہے کہ اگر کسی پڑوسی نے اپنے 26 دوستوں اور رشتہ داروں کے ساتھ ہَوَن رکھا ہوتا تو سب کو بالکل قبول ہوتا، یہ لوگوں کے اکٹھے ہونے کا مسئلہ نہیں بلکہ نماز پڑھنے کا مسئلہ ہے۔
بھارت میں مودی سرکار کے راج میں انتہا پسندی عروج پر ہے۔ مسلمانوں کے لیے حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ مودی کے برسر اقتدار آنے کے بعد ہندو قوم پرستوں کی جانب سے بھارت کے مختلف حصوں میں مسلمانوں کے کھلے مقامات پر نماز جمعہ کے اجتماعات کو روکنے کی کوششیں جاری ہیں۔ یہاں تک کہ جنونی ہندوؤں نے نماز کی ادائیگی سے روکنے کے لیے میدان میں گوبر ڈال دیا تھا۔اس سلسلے میں درجنوں افراد کو گرفتار بھی کیا گیا تھا تاہم انتہا پسندوں کی جانب سے مسلمانوں کی املاک کو نشانہ بنانے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ بھارت کے شہر علی گڑھ کے کالج میں نماز ادا کرنے پر پروفیسر کو ایک ماہ کی جبری رخصت پر گھر بھیج دیا گیا ہے۔پروفیسر صاحب کی نماز کی ویڈیو کے سامنے آتے ہی دائیں بازو کے ہندو نوجوانوں نے پروفیسر کے خلاف کارروائی کا مطالبہ شروع کر دیا۔ ایک انتہا پسند طالب علم کا کہنا تھا کہ پروفیسر کی جانب سے کالج کے اندر نماز ادا کرنا پرامن ماحول کو خراب کرنے کی کوشش ہے۔تاہم بہت لوگ سوشل میڈیا پر اس بات پر تنقید کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب بھارت کے ہر سکول کالج میں ہندو رسومات پر کوئی پابندی نہیں تو نماز ادا کرنے میں اتنا شور کیوں کیا جا رہا ہے۔یاد رہے بھارت میں مسلمانوں کے خلاف ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت مظالم کیے جا رہے ہیں۔
اتر پردیش اور ہریانہ میں برسراقتدار بی جے پی حکومت کی سرپرستی میں سَنگھ پریوار کی طرف سے مساجد کی بے حرمتی اور مسلمانوں کے خلاف نماز کی ادائیگی کے مقامات پر جاری حملوں پر بھی بھارتی مسلمانوں کو شدید تشویش لاحق ہے۔ مسلمانوں کے مقدس مذہبی مقامات کی بے حرمتی کے ایک اور قابل مذمت واقعہ میں انتہا پسند ہندو گروہوں کی جانب سے نماز جمعہ کی ادائیگی کے مقامات پر گائے کا گوبر پھینکنے کی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں۔عالمی برادری کی جانب سے تشویش کے اظہار کے باوجود تری پورہ میں مسلمانوں، ان کی عبادت گاہوں، گھروں اور کاروباری مقامات پر قابل مذمت حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔ بی جے پی جن ریاستوں میں برسراقتدار ہے، وہاں سیکڑوں افراد کو ’غیرقانونی سرگرمیاں (امتناع) ایکٹ‘ جیسے سیاہ قانون کے تحت گرفتار کیاگیا ہے جن میں نامور وکلا اور صحافی بھی شامل ہیں یہ وہ افراد ہیں جو اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے انسانی حقوق کی سنگین اور منظم انداز میں خلاف ورزیوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کر رہے ہیں۔ انتہا پسند ’بی جے پی‘ اور اس سے منسلکہ ’بَجرنگ دَل‘،‘وِشوا ہندو پریشد‘ اور ’مہاراشٹرا ناونِرمن سینا‘ جیسے جتھوں کے کارکن ریاست مہاراشٹرا میں مسلمانوں کی دکانوں، مساجد اور مزارات پر پرتشدد حملے کررہے ہیں۔