زندگی اورانسانیت نہیں کوئی ڈرامہ ہی لگ رہا ہے۔اصل زندگی تووہ تھی جسے اس نام نہادترقی نے اب اپنے دامن میں چھپالیاہے۔پڑوس میں میت پڑی ہوتی ہے،آہوں اورسسکیوں سے درودیوارہل رہے ہوتے ہیں لیکن پھربھی ساتھ والے گھر میں ڈھول اورباجے پابندی کے ساتھ بجتے رہتے ہیں۔ کیا یہ زندگی یا کوئی انسانیت ہے۔۔؟ واللہ۔۔ انسان تو ایسے نہیں تھے۔کچھ دن پہلے ایک جنازے پرآبائی شہربٹگرام جاناہوا،جنازہ لیٹ ٹائم میں ہونے کی وجہ سے رات پھر وہیں گزارنا پڑی۔اس گاؤں اوراس علاقے میں جہاں سے دن کوجنازہ اٹھاتھا شام کے بعدکسی منگنی یاشادی کی خوشی میں اتنی فائرنگ ہوئی کہ پھر ہمارے کانوں سے بھی سیٹیوں کی آوازیں آنا شروع ہوئیں۔یہی وہ گاؤں اورعلاقے توتھے جہاں آج سے پندرہ بیس سال پہلے جب کوئی فوتگی ہوتی تو ہمارے آباؤاجداد، رشتہ دار اور گاؤں والے گھروں میں چولہے تک نہیں جلاتے تھے۔ گاؤں کیا۔؟قریب کے کسی گاؤں،دیہات یادورپارکے کسی علاقے میں بھی اگرکوئی فوتگی ہوتی تووہ ٹی وی،ریڈیواورٹیپ ریکارڈرکواٹھاکرصندوق میں ڈال دیتے تھے۔ایک صرف ایک ماتم پر پورے گاؤں میں سناٹا چھا جاتا تھا۔ ایسا محسوس ہوتاکہ مرنے والے کے ساتھ پورے کے پوراگاؤں کہیں مر گیا ہو۔مرنے والے کی جدائی اورغم میں ہرآنکھ اشکبارہوتی تھی۔ہمیں اچھی طرح یادہے کہ ہمارے گاؤں کے عبدالقدوس کاکاجس دن فوت ہوئے اس دن شارجہ میں پاکستان اورسری لنکاکامیچ تھا۔آج کی طرح اس وقت ہرگھرمیں ٹی وی اورہاتھ میں یہ موبائل تونہیں تھے۔پورے گاؤں اورعلاقے میں اکادکا گھر ایسے ہوتے کہ جن میں کہیں ٹی وی، ریڈیو اور ٹیپ ریکارڈرہوتے تھے۔ہماری پھوپھی جن کا گھر گاؤں سے کچھ دورایک ٹیلے نماجگہ پرتھاجہاں آج بھی چڑھائی چڑھتے ہوئے ہمارے جیسوں کی سانسیں اکھڑ جاتی ہیں۔ان کے گھرمیں ٹی وی تھی۔ ہم بھائی،کزنزاوردیگردوست وہاں انہماک سے بیٹھ کروہ میچ دیکھ رہے تھے کہ اچانک پھوپھی چیختی اورچلاتی ہوئی کمرے میں آئی اورٹی وی بندکرتے ہوئے بولی۔
عبدالقدوس کاکافوت ہوگئے ہیں۔یہ سنتے ہی ہم سب اس طرح ساکت اوربے جان سے ہوگئے کہ جیسے عبدالقدوس کاکانہیں ہم مرگئے ہوں۔ پھر چند لمحوں میں ہم فوتگی والے گھر پہنچے۔ اس میچ کا کیا ہوا۔؟ہمیں کسی سے پوچھنے کی جرأت ہوئی اورنہ کسی میں کہنے کی کوئی ہمت۔اسی طرح ایک بارہم جمعرات والے دن پی ٹی وی پرعینک والاجن ڈرامہ دیکھ رہے تھے کہ خبرآئی عبدالرحمن کاکافوت ہوگئے ہیں تب بھی اسی طرح ہمیں پھوپھی کے گھرسے الٹے پاؤں واپس آناپڑا۔گاؤں میں کوئی بھی فوت ہوتااس وقت ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسا اپنا ہی کوئی مرا ہو۔ پورا کا پوراگاؤں ماتم والے گھرمیں جمع ہوتا۔بڑوں سے لیکرچھوٹوں تک ہربندہ مرنے والے کی جدائی اورغم میں اس قدر سوگوار ہوتا کہ یہ پتہ ہی نہ چلتاکہ اصل سوگواراورلواحقین کون ہیں۔ اگرمیت کورات رکھنا ہوتا تو ہر رنگ، نسل اوربرادری کے لوگ سوگوارخاندان کے ساتھ ایک ہی جھونپڑی میں رات گزارتے۔ عبدالرحمن کاکاجس دن فوت ہوئے اس دن ان کودفن نہیں کیاگیاکیونکہ لاہورمیں اس کی ایک بیٹی تھی جس نے آناتھاہمیں آج بھی اچھی طرح یادہے کہ وہ رات گاؤں کے بڑوں کے ساتھ ہم چھوٹوں نے بھی جاگ کر گزاری تھی۔آج کسی گاؤں والے کی جدائی، یاد اور غم میں راتیں جاگ کر گزارنا تو دور یہ بے حس لوگ دن بھی جاگ کرنہیں گزارتے۔ ہمیں نہیں یقین کہ آج فوتگی کے اعلان پر اکثر لوگ اناللہ واناالیہ راجعون بھی پڑھتے ہوں۔ لکڑ اور چولہے نہ جلانے والی باتیں توپرانی بہت پرانی ہوگئی ہیں۔گھرمیں میت پڑی ہوتی ہے اورساتھ والے گھروں میں موبائل اورٹی وی پر انڈین فلمیں،کرکٹ میچ اور ڈرامے چل رہے ہوتے ہیں۔ نوجوان ماتم والے گھر اور میت کے پاس ہی کانوں میں ہیڈفون لگا کر میوزک سے لطف اندوز ہو رہے ہوتے ہیں۔رات کو سوگوار خاندان کویہ کہہ کرچلتے بنتے ہیں کہ گھرپربچے اکیلے ہیں اورزمانہ ٹھیک نہیں۔اس لئے جانابہت ضروری ہے۔پہلے قبر کی کھدائی کے لئے پورے گاؤں کے جوان،بوڑھے اوربچے جمع ہوتے تھے لیکن اب پیسے دے کرمزدوروں سے قبر کھدوائی جاتی ہے۔پہلے کسی بھی فوتگی پرپورے گاؤں میں شادی بیاہ کی تاریخیں تین چارمہینے آگے کردی جاتی تھیں لیکن اب میت دفنانے کے بعدقبرکی مٹی اورسوگوارخاندان والوں کی آنکھیں آنسوؤں سے بھی خشک نہیں ہوتیں کہ شادیوں والے سوگوارخاندان کے پاس پہنچ جاتے ہیں کہ اگرآپ برانہ منائیں توہم بچے کی شادی پرڈھول،بینڈاورباجے بجالیں کیونکہ ہم نے کونسی روزروزبچے کی شادی کرنی ہے۔ شادی لیٹ اورتاریخ آگے بڑھانے کی بات اب کوئی نہیں کرتا۔اب توسوال ہی پیدانہیں ہوتاکہ گاؤں میں کسی فوتگی کی وجہ سے شادی بیاہ کاکوئی پروگرام کینسل یامنسوخ ہو۔ہمارے گاؤں، دیہات اورعلاقے توآج بھی وہی ہیں لیکن ان میں لوگ اب وہ پرانے والے نہیں رہے ہیں۔ آج کے انسانوں اورلوگوں کویہ تک پتہ نہیں ہوتاکہ ان کے اپنے سگے ماں باپ اوربہن بھائیوں پر کیا گزررہی ہے۔پڑوس اورپڑوسی توکسی کھاتے میں نہیں۔آج توایک ہی گھراورایک ہی چھت تلے رہنے والے اپنے خونی رشتہ داربھی ایک دوسرے کے دکھ، درد اور غم وپریشانی سے بے خبر اور لاعلم ہوتے ہیں۔ہرشخص دنیاکمانے اورکچھ پانے کے چکرمیں دوڑبھاگ میں لگاہواہے لیکن اس کے باوجودکسی کی زندگی میں کوئی سکون نہیں۔جب سے لوگوں نے اپنے بزرگوں کی روایات اور اقدار کو چھوڑا ہواہے تب سے شہروں کے ساتھ گاؤں اور دیہات کی ہوائیں اورفضائیں بھی بے سکون اور بے چین سی ہونے لگی ہیں۔یہی وہ گاؤں اوردیہات توہیں جہاں کبھی انسان کوٹھنڈی سانس لیتے ہوئے جنت کاگمان ہونے لگتاتھا۔اب گاؤں اوردیہات تووہی ہیں لیکن یہاں کی ہوائیں اورفضائیں وہ نہیں۔آپ یقین کریں اب یہاں سانس لیتے ہوئے تکلیف بہت تکلیف ہوتی ہے۔ ہمارے گاؤں توہماری جنتیں ہواکرتی تھیں۔ہم اپنے ان ہاتھوں،عادات اورجدیدطورطریقوں سے اپنی ان جنتوں کو جہنم میں تبدیل کررہے ہیں۔ہمیں کسی کی نعش اورلاش پرڈھول باجے بجاتے ہوئے ایک صرف ایک منٹ کے لئے یہ سوچنا چاہئے کہ ہمارے بزرگ کیا کرتے تھے اور ہم کیا کر رہے ہیں۔؟ ہمیں اپنی اداؤں اور اناؤں پر غور کر کے اپنے یہ طور طریقے فوری بدلنے ہونگے ورنہ پھر ہماری یہ دنیاوی جنتیں بھی جنتیں نہیں رہیں گی۔