بیجنگ : چین نے امریکا، آسٹریلیا اور برطانیہ کے سکیورٹی سے متعلق نئے تاریخی معاہدے کوانتہائی غیر ذمہ دارانہ قرار دیا ہے۔
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ژاؤ لیجِیان کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ علاقائی امن اور استحکام کو بری طرح متاثر کرے گا اور اس سے اسلحے کی دوڑ میں شدت آ جائے گی۔
برطانیہ، امریکا اور آسٹریلیا نے ایشیا پیسیفِک میں سکیورٹی کے ایک تاریخی معاہدے کا اعلان کیا ہے جس کا مقصد اس خطے میں چین کا مقابلہ کرنا ہے۔ اس معاہدے کے تحت آسٹریلیا پہلی مرتبہ جوہری ایندھن سے لیس آبدوزیں بنائے گا جس کے لیے ٹیکنالوجی امریکا فراہم کرے گا۔
اس معاہدے کو ’آکوس‘ کا نام دیا گیا ہے جو دراصل آسٹریلیا، برطانیہ اور امریکہ کے ناموں کے حروف تہجی (اے، یو کے، یو ایس) پر مشتمل ہے۔
تجزیہ کاروں کے خیال میں گزشتہ کئی عشروں میں دفاعی شعبے میں یہ تینوں ممالک کے درمیان طے پانے والے بڑے معاہدوں میں سے ایک ہے اور اس کے تحت تینوں ملکوں میں مصنوعی ذہانت سمیت دیگر جدید ترین ٹیکنالوجی کا تبادلہ ہو گا۔
امریکہ میں چین کے سفارتخانے نے آسٹریلیا، برطانیہ اور امریکاہ پر الزام لگایا ہے کہ اس معاہدے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ممالک سرد جنگ کی ذہنیت اور نظریاتی تعصبات کا شکار ہیں۔
اس معاہدے سے آسٹریلیا اور فرانس کے درمیان بھی ایک نیا جھگڑا شروع ہو گیا ہے جس کے بعد فرانس نے آسٹریلیا کے ساتھ مل کر 12 آبدوزیں بنانے کا معاہدہ منسوخ کر دیا ہے۔ فرانس کے وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ آسٹریلیا، برطانیہ اور امریکا کا معاہدہ فرانس کی پیٹھ میں خنجر اتارنے کے مترادف ہے۔
آکوس معاہدے کا اعلان بدھ کو انٹرنیٹ پر ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کیا گیا جس میں امریکی صدر جو بائیڈن، برطانوی وزیراعظم بورس جانسن اور ان کے آسٹریلوی ہم منصب سکاٹ موریسن موجود تھے۔
اگرچہ پریس کانفرنس میں چین کا براہ راست نام نہیں لیا گیا تاہم تینوں رہنماؤں نے (ایشیا پیسیفِک) کے خطے میں دفاعی خدشات کا بار بار ذکر کیا اور ان کا کہنا تھا کہ ان خدشات میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا ہے۔
برطانیہ کے وزیر دفاع بین والس کا کہنا تھا کہ چین اتنے بڑے عسکری اخراجات کرنے جا رہا ہے جس کی تاریخ میں مثال کم ہی ملتی ہے۔ چین بڑی تیزی سے اپنی بحریہ اور فضائیہ میں اضافہ کر رہا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ چین کچھ علاقائی تنازعات میں شریک ہے اور ان علاقوں میں ہمارے اتحادی ممالک کی خواہش ہے کہ وہ بھی اپنا دفاع کر سکیں۔‘