جناب عطا ء الحق قاسمی ایک نامور ادیب ، شاعر اور کالم نگار ہیں۔ ان کے کالم باقاعدگی سے ایک مئوقر روزنامہ میں شائع ہوتے ہیں۔ قاسمی صاحب کے پرستاروں کا ایک وسیع حلقہ موجود ہ ہے ۔ قاسمی صاحب نے گزشتہ دِنوں ’’ جب تاج اُچھالے جائیں گے‘‘ اور ’’میری دنیا کے غریبوں کو کون جگائے گا‘‘ کے عنوانا ت سے دو کالم لکھے ہیں۔ اول الذکر کالم میں انہوں نے پیشہ ور گداگروں سے کالم کاآغاز کرتے ہوئے کالم کا رُخ اُس سفید پوش طبقے کی پریشانیوں اور مسائل کی نشاندہی کی جانب کیا۔جن کی آمد ن محدود اور رُکی ہوئی ہے اور اشیاء خور و نوش کی قیمتیں اُ ن کی دسترس سے باہر ہوتی چلی جارہی ہیں۔ ہمارے یہاں حکومت اور مخیر حضرات کی ایک تعداد مدد بھی وہاں کرتی ہے جہاں داد نقد ملے۔ قاسمی صاحب نے پیشہ ور گداگروںاور سفید پوش طبقے کا ذکر کیا تو مجھے قرآن مجید میں سورہ بقرہ کی آیات نمبر 273-274 یاد آگئیں ، جس میں بتایا گیا ہے کہ ’’یہ خاص کر اُن غریبوں کے لیے ہے جو اللہ کی راہ میں گھرے ہوئے ہیں، (اپنے کاروبار کے لیے) زمین میں کوئی دوڑ دھوپ نہیں کرسکتے، اُن کی خودداری کے باعث ناواقف اُن کو غنی خیال کرتا ہے، اُن کے چہروں سے تم انہیں پہچان سکتے ہو، وہ لوگوں سے لپٹ کر نہیں مانگتے۔ (اُن کی مدد کرو)اور (سمجھ لوکہ اس مقصد کے لیے ) جو مال بھی تم خرچ کرو گے، اُس کا صلہ تمہیں لازماََ ملے گا، اِس لیے کہ اللہ خوب جانتا ہے۔ جو لوگ شب و روز، علانیہ اور چھپا کر اپنا مال (اللہ کی راہ میں ) خرچ کرتے ہیں، اُن کے لیے اُن کا اجر اُن کے پروردگار کے پاس ہے اور وہاں اُن کے لیے کوئی اندیشہ ہے اور نہ وہ کبھی غم زدہ ہوں گے‘‘۔ مئوخر الذکر کالم میں قاسمی صاحب، جن کی وابستگی دائیں بازو کی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے ساتھ رہی ہے، نے دائیں اور بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کو عوام کے مسائل کی بنیادوں پر متحد ہونے کا مشورہ دیا ہے۔ راقم کی جب اُن سے اس حوالے سے ٹیلی فون پر بات ہوئی تو انہوں نے فرمایا کہ جب ایک دوسرے کی دشمن سیاسی جماعتیں مفادات کے لیے ایک ہوسکتی ہیں تو دائیں اوربائیں بازو کی جماعتیں عوام کے معاشی مسائل پر کیوں ایک نہیں ہوسکتی ہیں؟
اس ضمن میں انہوں نے تجویز دی کہ بائیں بازو کی جماعتوں کو لادینیت کے تصورکوختم کرنا ہوگا اور دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کو اسلامی نظام کے نعرے کے بجائے غربت اور افلاس کے خاتمے کو اپنا مشن بنانا ہوگا۔
دائیں اور بائیں بازو کی سیاست کے حوالے سے بتاتا چلوں کہ اس کی بنیاد وہ عالمی فکری محاذ آرائی تھی جس نے دنیا کو سرمایہ دارانہ اور اشتراکی تصورات و نظریات میں تقسیم کیا تھا۔ ایک طرف مغرب نے سرمایہ دارانہ نظام کا علم اٹھایا تو روس اور بعد میں چین نے اشتراکیت کا نعرہ بلند کیا۔ یہی تقسیم سیاسی اور ادبی سطح پر پاکستان میں بھی دیکھنے میں آئی۔ ۔ مغربی دنیا میں بائیں بازو کی فکر تبدیلی، حرکت اور مظلوم طبقات کی حمایت سے متعلق تھی اور یہ بھی کوئی لازم نہیں کہ بائیںبازو کی جماعت کا مارکسزم یا لینن ازم کے ساتھ واقعی کوئی بنیادی یا براہ راست تعلق ہو۔ اس کے برعکس دائیں بازو کو روایت پسندی اور سرمائے کے غلبے کو برداشت کرنے والا فکر قرار دیا جاتا ہے ۔مگر پاکستان میں ان نظریات کی باہمی کشمکش نے کفر اور اسلام کی جنگ کا درجہ پایا۔ اس حوالے سے انتہا پسندی کا یہ عالم تھا کہ مغرب کی دائیں بازو اور بائیں بازو کی سیاسی اصطلاحات کا تعین بھی قرآن و حدیث کے حوالے سے کیا گیا ۔ پاکستان میں ان اصطلاحات کا بیان قرآن کے ’’دائیں اور بائیں‘‘ ہاتھ سے متعلق کیا جاتا رہا۔
ہمارا حال تو اس وقت یہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اور وہ مذہبی جماعتیں بھی جو سیاست میں سرگرم ہیںمفاد ات کے لیے ایک کلب کے سوا کچھ نہیں۔ مثبت تبدیلی جس کے لیے وسائل و اختیارات ، مذہب اور سماج پر اجارہ داریوں کو ختم کر نا بنیادی شرط ہے اور اس کے لیے شعور اور آگہی کو عام کرنا پہلا قدم ہے۔اس باب میں ہماری سیاسی و مذہبی جماعتیں بانجھ ہیں ۔
اس کے لیے مثبت سوچ رکھنے والے ہر فرد کو اس میںاپنا حصہ ڈالنا چاہیے، کہ لوگ مسائل کی بنیاد پر متحد ہوں اور زبان، فرقے اور علاقائی تعصب کے زندان سے نکل سکیں۔ حدیث مبارکہ جو عبداللہ بن سلامؓ بیان کرتے ہیں کہ’’ نبی مکرم ؐ جب مدینہ تشریف لائے تو لوگ آپؐ کو دیکھنے کے لیے امڈ آئے اور ایک دوسرے سے کہنے لگے : اللہ کے رسولؐ آگئے ہیں، اللہ کے رسولؐ آگئے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ میں بھی اُن کے ساتھ باہر نکلا ۔ پھر میں نے جب آپؐ کا چہرہ دیکھاتو مجھے اُسی وقت اندازہ ہوگیا کہ یہ چہرہ کسی جھوٹے آدمی کا نہیں ہوسکتا۔ اُس موقع پر پہلی بات جو آپؐ کی زبان سے میں نے سنی، وہ یہ تھی کہ کہ آپؐ نے فرمایا :لوگو، سلام کو عام کرو، بھوکوں کو کھانا کھلائو، رشتے داری کاحق ادا کرو اور نماز کا اہتمام رکھو، اُس وقت بھی جب لوگ سو رہے ہوتے ہیں۔ تم یہ کرو گے تو سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہوجائو گے‘‘ اِن اوصاف کی حامل شخصیات جس میدان میں بھی قدم رکھیں گی خواہ وہ سیاست ہو، معیشت ہو، ادب ہو ، سماجی مسائل ہوں وہ وہاں استحصال اور جبر کا خاتمہ کریں گی اور اللہ کی مدد اُن کے ساتھ ہوگی۔ اقبالؒ نے جو کہا ہے کہ ’’جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی‘‘ طالبِ علم کے مطابق اِسی طرف اشارہ ہے۔ اسی طرح مولانا سندھی سماجی تبدیلی کے عمل کو انقلاب سے تعبیر کرتے ہیں اور سیاسی عمل کو جہاد۔ ان کے نزدیک سماجی تبدیلی سیاسی تبدیلی کی بنیاد بنتی ہے۔ محمود مرزا صاحب بھی قومی سیاست پر سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے تسلط کو توڑنے کے لیے سماجی خدمت کے ذریعے سیاست میںآنے والوںکو ناگزیر قرار دیتے تھے۔پاکستان میں حقیقی تبدیلی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک عوام سیاسی اختیارات امیرترین اور بدعنوان اشرافیہ سے سماجی سیاستدانوں کو منتقل نہ کردیں جو انصاف پر مبنی معاشرے کے قیام کے لیے جدو جہد کریں۔
طالبِ علم کا خیال ہے کہ اس تجویز پر عمل درآمد کے لیے بھی اسٹیٹس کو کی حامی جماعتوں کے خلاف سخت جدوجہد کرنا ہوگی۔ہماری پوری سیاسی تاریخ میں سیاسی جماعتیں ہوں یا اُن کے اتحاد، اُن کا مقصد اس استحصالی نظام کو کمزور اور ختم کرنے کے بجائے حکومت ِ وقت کو کمزور کرنا رہا ہے۔ اس غیر منصفانہ معاشی نظام کے خاتمے کے لیے سماجی طور پر سرگرم سیاستدانوں اور دائیں اور بائیں بازو کی فکر کی حامل جماعتوں کو ایک ایسے سماجی اور معاشی نظام کے قیام کے لیے تحریک کا آغاز کرنا چاہیے جو لوگوں کی فلاح و بہبود کو فروغ دے اور ان اسباب کو ختم کرے جو غربت کو جنم دیتے ہیں۔اس کے لیے ترقی پسند ہوں یا رجعت پسند دنوں کو ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر صرف اور صرف عوام اور وطن کی ترقی اور خوشحالی کے لیے متحد ہونا ہوگا۔