اتنی خوشامد تو آئینی لحاظ سے اپنے ماتحت وزیراعظم کی چودھری فضل الٰہی نے ذوالفقار علی بھٹو اور ممنون حسین نے نوازشریف کی نہ کی ہو گی جتنی گزشتہ روز موجودہ صدرمملکت جناب عارف علوی نے نئے پارلیمانی سال کے آغاز پر مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے عمران کی کر ڈالی… موصوف گویا ہوئے کہ دنیا بھر کے لیڈروں اور دوسرے لوگوں کو عمران خان جیسے مدبر اور شاندار پالیسیاں متعارف کرانے والے سیاستدان کو اپنا پیرومرشد تسلیم کر لینا چاہیے یوں انہوں نے صدر مملکت جیسے باوقار اور وفاقِ پاکستان کی علامت معزز ترین ادارے کو محاورے کی زبان میں ٹکے ٹوکری کر کے رکھ دیا… صدر عارف علوی یہ تقریر اس عالم میں کر رہے تھے کہ ان کے سامنے پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی مرتبہ آزادیِ اظہار کی قدروں کو اس حد تک پامال کر کے رکھ دیا گیا کہ پریس گیلری کو تالا لگا ہوا تھا وہاں پر ہُو کا عالم تھا جسے دورانِ تقریر دیکھ کر صدر صاحب ایک دفعہ خود بھی حیران رہ گئے جبکہ پارلیمنٹ ہائوس کے باہر ملک کی تمام صحافی تنظیموں کے نمائندوں اور کارکنوں نے انسانی حقوق کی سربلندی کے لئے کام کرنے والی مختلف تنظیموں کو ساتھ ملا کر اتنا بڑا احتجاجی مظاہرہ کر رکھا تھا کہ ایک دنیا کی نگاہیں اس پر مرکوز تھیں… حزب اختلاف کے رہنما میاں شہباز شریف ، بلاول بھٹو اور مولانا فضل الرحمن سمیت دیگر قائدین باہمی اختلافات کو نظرانداز کر کے صحافیوں کے اس مطالبے پر اُن کے ساتھ آن اکھٹے ہوئے تھے کہ حکومت کی جانب سے ’پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی‘ کے نام سے مجوزہ قانونی بل کو جسے میڈیائی مارشل لاء کے نام سے تعبیر کیا جا رہا ہے حقارت کے ساتھ بیک قلم مسترد کر کے رکھ دیں گے… صحافیوں اور قائدین حزب اختلاف کا یہ غیرمعمولی اجتماع صدر عارف علوی کے اس دعوے کی عملاً تردید کر رہا تھا کہ وزیراعظم کی پالیسیوں کو پاکستانی عوام اور دنیا بھر میں بنظر تحسین دیکھا جا رہا ہے۔ اسی پر اکتفا نہیں عمران حکومت کے اس ارادے اور پروگرام کو بھی الیکشن کمیشن آف پاکستان جیسے آئینی ادارے کے علاوہ حزب اختلاف کی جملہ جماعتوں، ’’فافن‘‘ اور PILDAT جیسے انتخابی امور پر مہارت رکھنے والے اداروں نے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے ذریعے آئندہ انتخابات کا انعقاد ناقابل عمل قرار دے دیا تھا… سب کی متفقہ رائے تھی اس مہنگی ترین ٹیکنالوجی کو جسے دنیا کے اکثر جمہوری ممالک نے تھوڑا بہت آزما کر پس پشت ڈال دیا ہے اختیار کر کے من مرضی کے انتخابی نتائج حاصل کرنے میں مدد لی جا سکتی ہے حکومتی وزراء الیکشن کمیشن، حزب اختلاف کی جملہ جماعتوں اور ماہرین کے اتفاق ِ رائے پر اس قدر برہمی کا شکار ہوئے کہ وزیر ریلوے اعظم سواتی صاحب نے جی بھر کر اور انتہائی غیرپارلیمانی و غیرمہذب انداز میں الیکشن کمیشن کے ادارے پر الزام لگا دیا کہ اس نے پیسے پکڑے ہوئے ہیں جہنم میں جائے، اُسے آگ لگا دینی چاہیے… معاً بعد ان وزیر صاحب کو اپنے ساتھ بٹھا کر وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے چیف الیکشن کمشنر جناب سکندر سلطان پر الزام جڑ دیا کہ ان کے میاں نوازشریف کے ساتھ روابط ہیں … ان کی غیرجانبداری مشکوک ہے لہٰذا موصوف کو مستعفی ہو جانا چاہیے… اس سے ماقبل صدر مملکت نے بھی صدارتی محل میں متعلقہ وزراء اور الیکشن کمیشن کے ذمہ داران کے ساتھ ایک ملاقات کے دوران آئینی دارے کی جانب سے حاضر اراکین کی اپنی زبان مبارک سے سرعام توہین کی تھی… الیکشن کمیشن نے دو روز بعد اپنے خصوصی اجلاس میں ان وزراء کو نوٹس جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے کہ وہ الیکشن کمیشن کے خلاف سرعام لگائے جانے والے الزامات کا ثبوت پیش کریں بصورت دیگر ان کے خلاف آئینی و قانونی کارروائی کی جا سکتی ہے اب یہ وزراء کرام آئیں بائیں شائیں پر لگے ہوئے ہیں… دوسری جانب چیف الیکشن کمشنر کا منہ بند کرنے کے لیے ان کی تعیناتی کے خلاف جو درخواست دائر کی گئی تھی اسے عدالت عظمیٰ کے فل بنچ نے خارج کر دیا ہے… جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی جیسی پارلیمنٹ میں بھرپور نمائندگی رکھنے والی جماعتوں نے الیکشن کمیشن کو اپنی بھرپور اصولی اور اخلاقی حمایت کا یقین دلایا ہے…
اسی پر بس نہیں چار روز پہلے یعنی گزشتہ 12 ستمبر کو ملک بھر میں کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات ہوئے تو عمران خان کی حکمران جماعت تحریک انصاف ملک بھر سے اپنی مدمقابل پاکستان مسلم لیگ (ن) سے صرف چار نشستیں زیادہ لے سکی… پنجاب جیسے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے اور سیاسی طور پر مؤثر ترین صوبے میں اسے مسلم لیگ (ن) کے مقابلے میں شکستِ فاش سے دوچار ہونا پڑا… کراچی جیسے صنعتی و تجارتی صدر مقام جہاں 2018 کے انتخابات میں انہیں قومی اسمبلی کی 14 نشستیں ’عطا‘ ہوئی تھیں اور اس شہر کے پوش علاقوں میں عمران خان کا ڈنکا بجتا تھا… وہاں کی ڈیفنس اور کلفٹن جیسی کالونیوں سے اس کے بمشکل دو امیدوار کامیاب ہو پائے ہیں… صوبہ خیبر پختونخوا کے روایتی گڑھ میں اگرچہ اسے کامیابی ملی مگر اس کے دارالحکومت پشاور میں حزیمت کا سامنا کرنا پڑا… بلوچستان میں جیسا کہ اس صوبے کے معروضی سیاسی حالات ہیں… عمران خان اگر ملک کے حکمران نہ ہوتے تو شاید ایک بھی نشست حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوتے مگر وہاں سے جو نشستیں ان کو ملی ہیں ان کی بنیاد پر دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ہماری جماعت ملک کی واحد سیاسی تنظیم ہے جسے تمام صوبوں میں نمائندگی حاصل ہے جبکہ امر واقع یہ ہے وزیراعظم اور ان کی جماعت اپنی پالیسیوں اور تین سالہ کارکردگی کی بنا پر اپنے لیے تکلیف دہ حد تک تنہائی کا شکار ہو کر رہ گئے ہیں ان کا میڈیا اتھارٹی بل پارلیمنٹ پیش ہونے سے پہلے ہی جملہ اخباری تنظیموں اور عوامی لیڈروں کی جانب سے حقارت کے ساتھ ٹھکرا کر رکھ دیا گیا ہے… الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں جن کے ذریعے وہ اگلے انتخابات کے انعقاد کے خواہش مند ہیں بلکہ انہیں انا کا مسئلہ بنائے ہوئے ہیں اس وقت سخت ترین قومی تنازع کا شکار بن گئی ہیں… اس سب پر مستزاد جھلسا کر رکھ دینے والی مہنگائی کے عفریت نے عام آدمی کیا سفیدپوش لوگوں اور درمیانے درجے کے کھاتے پیتے کنبوں کی زندگیوں کو اجیرن کر کے رکھ دیا ہے… بیروزگاری کا چلن ہے جبکہ لاء اینڈ آرڈر کی ابتر صورت حال کا یہ عالم ہے کہ ہر چھٹے ساتویں ماہ بعد پنجاب جیسے صوبے میں چیف سیکرٹریوں کے علاوہ آئی جی پولیس کو بھی تبدیل کر کے رکھ دیا جاتا ہے… ایک ذہنی اور عملی انتشار کی کیفیت ہے جس نے پوری قوم کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے… کیا یہ ہے کرکٹ کے سابق کھلاڑی عمران خان کا بطور حکمران وہ تدبر اور موصوف کی عالیشان پالیسیاں جن سے متاثر ہو کر ہمارے صدرمملکت نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں قوم کے منتخب نمائندوں کے سامنے کہہ ڈالا دنیا کو انہیں اپنا پیرومرشد تسلیم کر لینا چاہیے… ’’خوشامد‘‘ بھی کوئی کرے تو لازم ہے شعور!…
جس دنیا کو عارف علوی صاحب نے اپنے مرشد گرامی کے آستانے کے آگے سر جھکا دینے کا مشورہ دیا ہے اس کا سب سے بڑا لیڈر امریکہ کا صدر جوبائیڈن انہیں اس قابل نہیں گردانتا کہ فون پر رسمی سلام دعا ہی کر لے… چین جو پاکستان کا ہر اچھے اور برے حالات میں ساتھی رہا ہے وہ عمران خان کی پہلی پاکستانی حکومت ہے جس سے حددرجہ نالاں ہے… سعودی عرب کے بادشاہ جنہوں نے ان کے حکومت سنبھالتے ہی خیرمقدم کیا تھا، پروٹوکول دیا تھا وہ تین سال کے اندر برافروختہ ہو چکے ہیں کہ ولی عہد سلمان بن شہزادہ بمشکل ٹیلی فون پر بات کرنے کے لئے رضامند ہوتے ہیں… برطانیہ جہاں ہمارے وزیراعظم بہادر کی پہلی سسرال ہے اور وہاں کی اشرافیہ کے ساتھ تعلقات پر بہت ناز کرتے ہیں اس کا وزیراعظم ترت جواب دیتا ہے کہ کرکٹ میچ دیکھنے ضرور آئو لیکن 10 ڈائوننگ سٹریٹ کا پروٹوکول نہیں ملے گا… مودی کا مذکور کیا وہ پاکستان کا پیدائشی اور نظریاتی دشمن ہے لیکن ہمارا وزیراعظم اس سے اتنی امیدیں لگائے بیٹھا تھا کہ تین دفعہ ٹیلی فون کیا تاکہ بھارتی جنگی قیدی ابھینندن کو شاندار چائے پلا کر غیرمشروط طور پر جو رہا کر دیا ہے اس پر بھارتی وزیراعظم کی جانب سے تحسین کے کلمات ہی سننے کو مل جائیں لیکن مودی نے اتنی بڑی رعایت حاصل ہو جانے کے باوجود ہمارے کھلاڑی وزیراعظم کو کسی جواب کے قابل نہ سمجھا… اس کے بعد 5 اگست 2019 کا غاصبانہ اقدام کر کے پوری ریاست مقبوضہ جموں و کشمیر کو آئینی لحاظ سے ہڑپ کر لیا… عمران خان محض شور مچانے کے لئے رہ گئے… دنیا میں کہیں شنوائی نہیں ہوئی اور اب امریکی کانگرس کی ایک کمیٹی کے اجلاس میں دیئے گئے تازہ ترین بیان میں وہاں کے وزیرخارجہ انٹونی بلنکن نے حکم جاری فرمایا ہے پاکستان اس وقت تک طالبان کی حکومت کو تسلیم نہ کرے جب تک وہاں کی خواتین کو امریکہ اور مغربی تہذیب کے معیار پر پورے اترتے ہوئے حقوق نہیں دے دیئے جاتے… ردعمل میں واشنگٹن میں ہمارے سفیر اسد مجید خان زبانِ حال سے یہ کہتے نظر آئے سرِ تسلیم خم ہے جو مزاج یار میں آئے… یہ دنیا آخر کس بات سے متاثر ہو کر صدر پاکستان کی ہدایت کے تابع ہو کر عمران خان کے ہاتھ پر بیعت کر لے گی… الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ساتھ محاذ آرائی کی جو صورت پیدا کر دی گئی ہے اس کا ایک سبب مبصرین ڈسکہ میں ہونے والے قومی اسمبلی کے ایک حلقہ میں ضمنی انتخابات کے دوران الیکشن کمیشن کی جانب سے دھاندلی کے سارے اقدامات کی بساط لپیٹ کر رکھ دینا ہے اور دوسری اہم تر وجہ فارن فنڈنگ کیس کا وہ قضیہ ہے جس پر چیف الیکشن کمشنر کا ایک ہی فیصلہ کن اقدام کپتان کی حکومت کے غبارے سے ہوا نکال کر رکھ دے گا… یہ ہے وہ سبب جس کی بنا پر عمرانی وزارت عظمیٰ اور اس کے وزرائے کرام سخت برہمی کا شکار ہوئے جا رہے ہیں… ساکھ ان کی راکھ بن کر اُڑ گئی ہے اور عارف علوی صاحب کا کمالِ سخن ملاحظہ کیجیے کہ فرماتے ہیں کہ دنیا ان کو صدرمملکت کی مسند پر لا بٹھانے والے وزیراعظم کو میری مانند پیرومرشد کا درجہ کیوں نہیں دے دیتی… یارانِ نکتہ دان سوال اٹھا رہے ہیں انجامِ گلستاں کیا ہو گا…