واشنگٹن: امریکی مذاکرات کار زلمے خلیل زاد نے کہا ہے کہ طالبان کے ساتھ 2 ہفتے تک کابل میں داخل نہ ہونے کا معاہدہ تھا لیکن اشرف غنی کے اچانک چلے جانے سے طالبان کیساتھ معاہدہ ٹوٹ گیا۔
امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں سہولت کار کا کردار ادا کرنے والے زلمے خلیل زاد نے غیر ملکی خبر رساں ادارے کو دئیے گئے انٹرویو میں کہا کہ طالبان کابل کے باہر 2 ہفتے کیلئے انتظار کرنے اور مستقبل کی حکومت سے متعلق لائحہ عمل کی تیاری کیلئے تیار ہو گئے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ حتیٰ کہ آخری وقت میں طالبان کیساتھ کابل میں داخل نہ ہونے سے متعلق معاہدہ کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ لیکن پھر 15 اگست کو اشرف غنی فرار ہو گئے اور اس روز سینٹرل کمانڈ کے چیف جنرل فرینک مکینزی کیساتھ ہونے والی میٹنگ میں طالبان نے کہا کہ افغان حکومتی اختیارات تو ختم ہو چکے، تو کیا امریکی افواج کابل کی سیکیورٹی کو یقینی بنائے گی؟ اور پھر آپ جانتے ہیں کہ کیا ہوا، امریکہ نے کہا کہ ہم نے سیکیورٹی کی ذمہ داری نہیں لی۔
امریکی صدر جوبائیڈن نے اصرار کیا کہ امریکی افواج صرف اور صرف امریکی اور افغان اتحادیوں کے انخلاءکا کام کرے گی اور اس کے علاوہ افغانستان میں نہیں ٹھہرے گی۔
زلمے خلیل زاد کے بیان سے متعلق امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان نیڈ پرائس سے سوال پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ کابل میں ایک لمحہ بھی زیادہ رہنا آپشن نہیں تھا۔ امریکہ کی افغانستان میں رہنے کیلئے کوئی حقیقی، قابل عمل اور عملی وجہ موجود نہیں تھی۔