میں کہہ رہا تھا کہ اس سیلاب میں جتنی عزت اور شہرت’الخدمت‘نے کمائی ہے شائد ہی کسی دوسری رفاعی اور فلاحی تنظیم کے حصے میں آئی ہو اوراس کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی نے بھی، جو اس کی ’مدر آرگنائزیشن‘ہے۔ کسی فرد کے ماننے یا نہ ماننے سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ الخدمت کی کارکردگی کو بین الاقوامی تنظیموں اور دوست ممالک تک نے سراہا ہے۔ مجھے اچھا لگا جب میں نے جمائما خان کا الخدمت کے حوالے سے تعریفی ٹوئیٹ دیکھا اور اس وقت دیکھا جب ان کے سابق شوہر جناب عمران خان یہاں ٹیلی تھون میں پانچ سو ارب روپے جمع کرنے کا دعویٰ کر رہے تھے۔ ہم بہت سارے کالم نگار اور سینئر صحافی محترم سراج الحق کے ساتھ موجود تھے جہاں جماعت اسلامی پاکستان کے سیکرٹری جنرل امیر العظیم، سیکرٹری انفارمیشن قیصر شریف اور الخدمت کے سیکرٹری شاہد اقبال بتا رہے تھے کہ اب تک الخدمت کی طرف سے دس ارب روپوں سے زائد کی امدادی سرگرمیاں ہوچکی ہیں۔
میں کسی کا نام نہیں لوں گا، ہمارے کچھ مشہور اینکرزیا تجزیہ کار جو آج کل پاک فوج پر بوجوہ کچھ زیادہ ہی برہم ہیں، وہ این ڈی ایم اے کوبھی تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے اور ظاہر ہے کہ اس کے ساتھ وہ موجودہ حکومت کو کیسے معاف کر
سکتے تھے۔ میں نے بات جناب سراج الحق کے فقرے سے ہی شروع کی اور کہا کہ سیلاب پر سیاست نہیں ہونی چاہئے اور اگر ہمیں زلزلے اور سیلاب جیسی آفات بھی متحد نہیں کرسکتیں تو پھر ہمیں اللہ کے کسی اور بڑے عذاب کا انتظار کرنا چاہئے جو ہماری آنکھیں کھول سکے۔ جناب سراج الحق کے بہت سارے شکوے درست تھے جیسے انہوں نے کوہستان میں ڈوب جانے والے پانچ نوجوانوں کے بارے بتایا اور کہا کہ انہوں نے وزیراعلیٰ خیبرپختونخواہ سے رابطہ کیا اور ان سے درخواست کی کہ وہ اپنا ہیلی کاپٹر دیں، وزیراعلیٰ کی طرف سے جواب ملا کہ ان کا ہیلی کاپٹر ریسکیو سروسز کیلئے نہیں ہے۔ انہوں نے وزیراعظم کے دفتر سے بھی رابطہ کیا اور وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری نے ان کے رابطے کے گھنٹوں بعد رات گئے فون کر کے پوچھا کہ وہ کیوں رابطہ کر رہے تھے حالانکہ وہ اپنے پیغام میں سب کچھ تفصیل سے بتا چکے تھے۔ انہوں نے اس پر بھی تشویش ظاہر کی کہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری تیس ارب ڈالرز کے نقصان کی بات کر رہے ہیں اورایشیائی ترقیاتی بنک کے مطابق یہ نقصان چالیس ارب ڈالرز کا ہے، ان کی تشویش یہ تھی کہ اگر ہمارے اعداد وشمار ہی ایک نہ ہوئے تو دنیا ہماری بات کو کیسے مانے گی؟ انہوں نے اس پر بھی فکرمندی ظاہر کی کہ عالمی امداد متاثرین تک نہیں پہنچ رہی اور ایسا نہ ہو کہ جب یہ وقت گزر جائے تو اس عالمی امداد کو لوگوں کے گھر بنانے کی بجائے سرکار سڑکیں اور پل بنا کے اپنی کارکردگی دکھانے پر نہ لگا دے۔
میں نے کہا، ہمارے کچھ دوست بہت جذباتی ہو رہے تھے، ایک کو شکوہ تھا کہ این ڈی ایم اے بنا کے تمام امدادی سرگرمیوں کو سنٹرلائزڈ کر دیا گیا ہے اور تمام امداد اسلام آباد پہنچ کر سٹور ہو رہی ہے جبکہ ہمارے دوسرے دوست کا کہنا تھا کہ حکومت کا تمام کا تمام ڈھانچہ چاہے وہ تھانے دار ہو یا ڈپٹی کمشنر سب کا سب کرپٹ ہے۔ میرا کہنا تھا کہ اس مصیبت کے عالم میں ہمیں ایک دوسرے پر کرپٹ کرپٹ اور چور چور کی آوازیں لگانے کی بجائے وہ تجاویز دینی چاہئیں جن سے امدادی سرگرمیاں تیز رفتار اور کرپشن پروف ہو سکیں۔ میں نے واضح طور پر کہا کہ پاک فوج نے بھی اپنا کردارادا کیا اور مختلف اداروں نے بھی مگر نقصان اور تباہی اتنی زیادہ ہے کہ ہر کسی کا ہرجگہ پہنچنا ناممکن ہے۔ ہمیں تسلیم کرنا چاہئے کہ شہباز شریف نے بھی سیلاب زدگان کی مدد کے لئے بہت کام کیا اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے بھی امریکی صدر سے اقوام متحدہ تک سے پاکستان کا موسمیاتی تغیر سے ہونے والے نقصانات کا مقدمہ کامیابی سے لڑا۔ میرا یہ بھی کہنا تھا کہ چاہے پاک فوج ہویا ہماری سیاسی جماعتیں، ہماری این جی اوز ہوں یا سرکاری ادارے، یہ ہم سب ہی ہیں۔ہم سب ایک دوسرے پر اعتماد نہیں کرتے، ایک دوسرے کو چور سمجھتے ہیں۔ہمارا مسئلہ کوارڈی نیشن کا بھی ہے، ہر کوئی امداد اپنے طور پر امداد لے کر جا رہا ہے اوراس بات کا کوئی تعین ہی نہیں کہ کس جگہ کس شے کی ضرورت ہے۔ جناب مجیب الرحمان شامی نے تجویزدی کہ جناب سراج الحق،وزیراعظم شہباز شریف اور وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ سے ملاقاتیں کریں اور سسٹم کی خامیوں کی نشاندہی کریں۔ جناب سلما ن غنی کا بھی یہی کہنا تھا کہ ہمارے پاس یہی ادارے اور یہی سسٹم ہے جسے راتوں رات تبدیل نہیں کیا جا سکتا، ہمیں دیکھناہو گا کہ ہم اسی سسٹم سے بہترین نتائج کیسے لے سکتے ہیں۔
جناب سراج الحق نے نشاندہی کی کہ تین کروڑ تیس لاکھ متاثرہ افراد میں چھ سے سات لاکھ حاملہ خواتین ہیں اور زچہ بچہ کی صحت اور زندگی کے لئے بہت سارے مقامات پر کوئی ا نتظام نہیں۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں تونسہ سے آگے انڈس ہائی وے پرپنجاب اور خیبرپختونخواہ کی سرحد پر گیا اور وہاں ’نیوز نائیٹ‘ میں لوگوں نے بتایاکہ ہر مہینے کسی ماں کی زچگی کی حالت میں ڈیتھ ہوجاتی تھی اور سیلاب میں تو کوئی ان کے گاوں تک پہنچا ہی نہیں۔جماعت اسلامی کے امیر نے نشاندہی کی کہ ایسے علاقوں میں این جی اوز جاتی ہیں اورپھر نوجوانوں بالخصوص لڑکیوں کو اپنے چنگل میں پھنسا لیتی ہیں۔ وہ کہہ رہے تھے کہ اندرون سندھ اور جنوبی پنجاب میں لوگ اپنے وڈیرے تک کا نام لینے سے ڈرتے ہیں او رہم کہتے ہیں کہ بہت شعور آ گیااور اب انقلاب آنے والا ہے۔ میں نے انہیں بتایا کہ آپ جنوبی پنجاب اور اندرون سندھ رہنے دیں، میں کمالیہ سے بیس پچیس کلومیٹر دور دریائے راوی کے کنارے ایک بستی میں جو ڈوب رہی تھی۔ وہاں اپنے پروگرام میں جوان لڑکوں اور لڑکیوں سے کہا کہ وہ کلمہ اور سورۃ فاتحہ سنائیں تو پوری بستی میں ایک آدھ ہی سنا سکا، لوگوں کو کلمہ تک پورا نہیں آتا۔ ایک ساتھی نے پوچھا کہ کیا اس پورے متاثرہ علاقے میں ہمیں دوسری سیاسی جماعتیں بھی نظر آئیں تو بتایا گیا کہ صرف دینی جماعتیں ہی موجود ہیں۔ وہ دینی جماعتیں جن کو مادر پدر آزاد طبقے عورتوں کے حقوق کا دشمن کہتے ہیں مگر آج متاثرہ عورتوں نے سر چھپانا ہو یا بدن، ان کی جسمانی ضروریات بھوک کی ہوں یا نسوانی، سب کے لئے دینی جماعتیں ہی کام کر رہی ہیں جن میں الخدمت کے ساتھ ساتھ تحریک لبیک اور جماعۃ الدعوۃ بھی شامل ہیں۔ میں سوچ رہا تھا کہ عورتوں کے حقوق کا نام نہاد بھونپو وہ موم بتی اور ناچا گروپ کدھر ہے جو مارچ کے مہینے میں عورت مارچ کے نام پر شہر، شہر ناچتا ہے۔ حقوق زوجیت کی ادائیگی تک کو عورت پر ظلم قرار دیتا ہے اگر کسی نے الخدمت کی بجائے اس ناچا گروپ کو بھی کہیں کسی عورت کا بدن ڈھکتے، اس کے بچوں کو کھانا کھلاتے، اس کے گھروالوں کو بخار کی دوا دیتے یا اس کاگرا ہوا گھر بناتے دیکھا ہو تو مجھے بتائیے گا۔
نجم ولی خان