حکومت جتنا مرضی پراعتماد ہونے کا تاثر دے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں اس وقت سیاسی عدم استحکام اپنے عروج پر ہے۔ قوموں کو سیاسی مسائل میں اتار چڑھاؤ کا سامنا توکرنا پڑتا ہی رہتا ہے لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ یہ ہمارے ملک میں یہ سب کچھ ایسے وقت پر ہو رہا ہے کہ جب ملک کو ایک طرف شدید قسم کی مالی مشکلات کا سامنا ہے تو دوسری طرف سیلاب کی وجہ سے ایک غیر معمولی صورتحا ل درپیش ہے اس کے علاوہ دہشت گردی بھی ایک مرتبہ پھر سے سر اٹھا رہی ہے۔ایک ایسی صورتحال میں جب پوری قوم بالخصوص تمام سیاسی پارٹیوں کو ملکی مفاد میں یکجا ہونے کی ضرورت تھی ایک سیاسی پارٹی وہ تمام حربے استعمال کرنے کے درپے ہے کہ جس سے ریاست اور حکومت دونوں عدم استحکام کا شکار ہوں۔
پاکستان تحریک انصاف نے بطور ایک سیاسی پارٹی بالعموم اور اس کے چیئرمین عمران خان نے بالخصوص کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی کہ پاکستان کو آئی ایم ایف کا پیکیج نہ ملے، سیلاب متاثرین کے لیے بیرون ملک سے آنے والی امداد متاثر ہو یا پھر جلسے، جلوسوں اور دھرنوں کی صورت میں ملک انتشار، بدامنی اور سیاسی عدم استحکام کی طرف چلا جائے۔
بلا شبہ عمران خان صاحب میں یہ صلاحیت تو ہے کہ وہ بڑے بڑے مجمعے اکٹھا کر سکیں لیکن ان کی سیاست اور رویوں کو کسی بھی طور سنجیدہ سیاست نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن انہیں مشورہ دینے والوں کو چاہیے (اگر وہ کسی کی بات سنیں تو) کہ وہ انہیں یہ بات سمجھائیں کہ سیاست کی جس ڈگر کا انتخاب انہوں نے کیا ہے اس کے نتائج کبھی اچھے نہیں نکل سکتے۔
نوے کی دہائی میں ہم نے دیکھا کہ سیاسی جماعتوں کی رسہ کشی کا نتیجہ ہمیشہ برا ہی نکلا۔ اسے حالات کی ستم ظریفی نہ کہیں تو اور کیا کہیں کہ وقت کی مین سیاسی پارٹیوں نے ٹھوکریں کھا کھا کر جب کوئی سبق سیکھا تو عین اس وقت عمران خان
صاحب کی سیاسی میدان میں بڑی انٹری ڈلوائی گئی۔اور پھر کچھ ہی عرصہ میں انہوں نے سیاست کو اتنا آلودہ کیا کہ ماضی کے تمام ریکارڈ بھی ٹوٹ گئے۔ اقتدار کی خواہش رکھنا اور اس کے لیے کوشش کرنا تو یقینا کوئی غلط بات نہیں لیکن عمران خان صاحب یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے انہوں نے جس قسم کی حکمت عملی اپنائی ہوئی ہے اسے حصول اقتدار کے لیے کوشش نہیں بلکہ اقتدار کی ہوس کہیں گے اور اس عمل میں جس سڑک پر وہ سرپٹ دوڑے چلے جا رہے ہیں اس کا اختتام ایک بند اور تاریک گلی میں ہوتا ہے۔
جو لوگ ملک کی سیاست اور اس میں ہونے والے اتار چڑھاؤ کو سطحی لیول پر دیکھتے ہیں وہ شائد میری بات نہ سمجھ سکیں، لیکن سیاست کے جوڑ توڑ کو سمجھنے والے میری اس بات کی تصدیق کریں گے کہ گزشتہ کئی برس سے اس بات کی ایک شعوری کوشش کی جا رہی ہے کہ یہ ثابت کیا جائے کہ اس ملک میں جمہوریت ایک ناکام سسٹم ہے لیکن مارشل لاٗ بھی اس کا متبادل نہیں۔ اسی بات کو استحکام بخشنے کے لیے تمام ہی مین سیاستدانوں پر معاشی اور اخلاقی کرپشن کے لیبل لگائے گئے، دو ایک کو چھوڑ کر چھوٹی سیاسی پارٹیوں کا کردار ملکی سیاست سے آؤٹ کر دیا گیا اور پھر اس وقت آخری قسط دو حصوں میں پیش کی جارہی ہے۔
پہلے حصے کی ابتدا میں ہم نے دیکھا کہ عمران خان کو عوام کی آخری امید کے طور پر مین سیاست میں لانچ کیا گیا اور بعد ازاں اس کو بھی مالی اور اخلاقی کرپشن کی دلدل میں دھکیل دیا گیا۔ شائد سیاستدانوں کو مالی اور اخلاقی طور پر کرپٹ اور بے ایمان ثابت کرنے کی یہ آخری قسط تھی۔ اسی قسط کے دوسرے مرحلے میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ فوج کو بطور ادارہ اور اس کی اعلیٰ قیادت کو متنازع بنانے کی کوششیں ہو رہی ہیں (اگر خدا نخواستہ پلاننگ کرنے والے اپنی اس حکمت عملی میں کامیاب رہے تو یہ ملک کے لیے کتنا تباہ کن ہو سکتا ہے اس کا اندازہ اس وقت لگانا کافی مشکل ہے)۔
سو بظاہر تو یہ نظر آ رہا ہے کہ سیاسی نظام کی بساط لپیٹنے کا عمل شروع ہو چکا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہاں جس قسم کا نظام رائج کرنے کا منصوبہ ہے اس کی بھی تیاریاں جاری ہیں۔ راولپنڈی کے سیاستدان شیخ رشید (جو آج کل جانے کیوں بہت اداس اور مایوس ہیں) کی بیشتر سیاسی پیش گوئیاں تو غلط ہی ثابت ہوتی ہیں لیکن ان کی اس بات میں کافی وزن نظر آتاہے کہ سارے کا سارا سیاسی نظام تلپٹ ہونے جا رہا ہے اور نئے نظام میں فٹ کرنے کے لیے کرداروں کے انٹرویو شروع ہو چکے ہیں۔
یہاں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کون ہے جواس موجودہ نظام کو رول بیک کرنے اور اپنی خواہش اور ضرورت کے مطابق کوئی نیا نظام لانے کی سوچ اور صلاحیت رکھتا ہے۔ یقینا یہ کام انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کے لیول سے نیچے کا نہیں۔ جس طرح کسی غریب کی بیٹی کی خوبصورتی اس کے لیے مصیبت بن جاتی ہے ٹھیک اسی طرح پاکستان کی جغرافیائی پوزیشن اور یہاں دفن قدرتی وسائل کی بھرمار اس کے لیے مصیبت بنی ہوئی ہے۔ یقینا روس، چین، ایران، وسط ایشیائی ریاستیں، بھارت اور افغانستان جیسے اہم ممالک کے ساتھ بارڈر رکھنے کے علاوہ بندرگاہ کی موجودگی وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے تمام بین الاقومی قوتیں یہاں اپنا اثر نفوذ رکھنے کی خواہش رکھتی ہیں
اگر ان وجوہات کو صحیح معنوں میں سمجھ لیا جائے تو بین الاقومی سازش کی سمجھ بھی آ تی ہے اور اس پر یقین بھی آتا ہے۔ رہی بات عمران خان صاحب کے بین الاقومی سازش کے بیانیے کی، تویہ سمجھنے کے لیے کچھ زیادہ کوشش نہیں کرنا پڑے گی کہ ایک بے اختیار وزیر اعظم (عمران خان صاحب نے اپنے حالیہ بیانات میں خود اس بات کو تسلیم کیا ہے) کی چھٹی کرانے کے لیے بین الاقومی قوتیں اپنی توانائی کیونکر ضائع کریں گی۔ اگر انہیں کسی بھی وقت کسی بھی سطح پر کوئی تبدیلی درکار ہو گی تو یقینا وہ ایک ایسے شخص کی ہو گی جو اختیارات کا مالک ہو۔