’’تاریخ اور مؤرخین کا مسئلہ یہ ہے کہ اس میں واقعات کو سطحی طور پر تو یاد رکھا جاتا ہے مگر ان کے پس منظر میں موجود حقائق ان واقعات کے شور تلے دب جاتے ہیں۔ 21 فروری 1987ء کا دن پاک و ہند کی تاریخ میں کرکٹ ڈپلومیسی کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے جب جنرل ضیاء الحق نے بالکل اچانک جے پور میں ہونے والے پاکستان انڈیا کے درمیان کرکٹ میچ دیکھنے کا پروگرام بنایا۔ اس وقت راجیو گاندھی وزیراعظم تھے اور دونوں ممالک کے درمیان سفارتی مروت کا معیار اتنا پست نہیں جتنا آج ہے۔ چنانچہ انڈیا کو بادل نخواستہ صدر پاکستان کو خوش آمدید کہنا پڑا۔ راجیو گاندھی کے خصوصی مشیر بہرام نام نے بعد ازاں ٹائمز آف انڈیا کو ایک عرصہ گزر جانے کے بعد بتایا تھا کہ جب راجیو گاندھی چنائے ایئر پورٹ پر ضیاء الحق کو رخصت کرنے آئے تو الوداعی مصافحہ کے وقت جنرل ضیاء نے راجیو گاندھی کا ہاتھ نہایت مضبوطی سے پکڑ لیا اور اس وقت تک پکڑے رکھا جب تک کہ راجیو کو اپنی پوری بات بتا نہیں دی۔ بہرام نام اس وقت واحد آدمی تھے جو دونوں سربراہان مملکت کے اتنے قریب کھڑے تھے کہ ان کی بات سن سکیں۔ جنرل صاحب نے راجیو کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا کہ جس ایٹم بم پر اتنی شوخی دکھا رہے ہو وہ ہم نے بھی بنا لیا ہے کسی غلط فہمی میں نہ رہنا۔ بہتر ہے کہ انڈیا نے پاکستان کے بارڈر پر جو فوجیں لگا رکھی ہیں انہیں واپس بلا لو ورنہ تاریخ ہلاکو خان اور چنگیز خان کو بھول جائے گی اور ضیاء الحق اور راجیو گاندھی کو یاد رکھے گی۔ یہ کہہ کر جنرل ضیاء نے راجیو گاندھی کا ہاتھ چھوڑا اور اپنے سی 130 طیارے میں سوار ہو گئے۔ کرکٹ ڈپلومیسی اپنا کام کر چکی تھی۔ اگلے چند روز میں انڈیا نے بارڈر سے فوجیں واپس بلا لیں۔
اس واقعہ میں اگر اب بھی آپ کو جنرل ضیاء الحق کا کمال نظر آتا ہے تو یہ آپ کی سوچ ہو سکتی ہے حقیقت یہ ہے کہ یہ پاکستان کے نیو کلیئر پروگرام کے خالق ڈاکٹر عبدالقدیر خان (نشان امتیاز) کی کئی سال کی محنت تھی جس نے پاکستان کو اس قابل بنا دیا تھا کہ اب انڈیا 1965ء یا 1971ء ایسی کوئی جارحیت کرنے کی جرأت نہیں کر سکتا تھا اور یہ Status آج بھی برقرار ہے۔ جب مئی 1998ء میں انڈیا نے ایٹمی دھماکے کر کے اپنے نیو کلیئر پاور ملنے کا اعلان کیا تو ڈاکٹر عبدالقدیر خان سمجھتے تھے کہ یہ پاکستان کے لیے اللہ کی طرف سے دیا گیا موقع ہے کہ ہم دنیا کو بتا دیں کہ ہم بھی ایٹمی طاقت ہیں۔ اس وقت سے آج تک اگر پاک و ہند کے درمیان باقاعدہ جنگ نہیں ہوئی تو اس کی واحد وجہ پاکستان کی Deterrance Policy ہے کہ جب بھی ہماری سر زمین پر حملہ ہو گا ہم ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال سے دریغ نہیں کریں گے۔
پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خالق ڈاکٹر عبدالقدیر خان طویل گمنامی کے بعد اس ہفتے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ وہ قید ریاست اور قید حیات دونوں سے آزاد ہو گئے۔ پاکستان سے محبت ان کی رگوں میں خون بن کر دوڑ رہی تھی۔ یہ واحد لیڈر دیکھا ہے جو گانے کی فرمائش پر بھی ملی نغمے کی ڈیمانڈ کرتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کی زندگی کا آخری دور 2004ء سے شرو ع ہوا جو بلاشبہ ایک افسوسناک دور تھا جو مرتے دم تک قائم رہا بقول فیض احمد فیض
اس راہ میں جو سب پہ گزرتی ہے سو گزری
تنہا پس زنداں کبھی رسوا سر بازار
پاکستان کی نیو کلیئر صلاحیت حاصل کرنے کے سفر میں تین کردار ناقابل فراموش ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیاء الحق اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان۔ یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ ان تینوں شخصیات کو تاریخ میں ایک متنازع کردار کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ بھٹو اور ضیاء الحق پر تنقید ان کے سیاسی فیصلوں کی وجہ سے ہے جس کا غلط یا صحیح کوئی نہ کوئی جواز موجود ہے لیکن ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب اس لحاظ سے بد قسمت تھے کہ محسن پاکستان جیسے عوامی خطاب کے باوجود وہ ایسے سلوک کے مستحق ٹھہرے جو قطعی طور پر جائز نہیں تھا۔
یہ ایک تلخ اور عبرتناک حقیقت ہے۔ ڈاکٹر صاحب پر الزام تراشی ایک طویل داستان ہے انہیں نظر بند کرنے والے تو یہاں تک کہتے ہیں کہ 2004ء میں ان کو امریکہ کے حوالے کرنے کے لیے طیارہ ایئر پورٹ پر کھڑا تھا ہم نے ڈاکٹر صاحب پر احسان کیا اور انہیں امریکہ کے حوالے نہیں کیا۔ ان پر لیبیا ، ایران اور نارتھ کوریا کو ایٹمی ٹیکنالوجی ٹرانسفر کرنے کا الزام ہے۔ اسی دوران انہیں De briefing یعنی تفتیش کے مراحل سے بھی گزرنا پڑا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ اس وقت کی مشرف حکومت کے اندر امریکہ کے آگے مزاحمت کا حوصلہ نہیں تھا لیکن معاملہ یہ ہے کہ مشرف کے بعد بھی جتنی حکومتیں آئیں یہ حوصلہ کسی میں بھی پیدا نہ ہوا کہ انہیں آزاد کردے۔ ڈاکٹر صاحب کا ایک شعر ملاحظہ کریں۔ خون میں ڈوبے یہ چند الفاظ ان کی ذہنی کیفیت کے عکاس ہیں:
گزر تو گئی ہے تیری حیات قدیر
ستم ظریف مگر کوفیوں میں گزری ہے
اہل کوفہ کو منافقت ، دھوکہ دہی اور مفاد پرستی کا استعارہ سمجھا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے خانوادۂ رسول کے ساتھ دھوکہ کیا تھا امداد کا وعدہ کر کے مکر گئے اور کہنے لگے کہ ہمارے دل حسینؑ کے ساتھ مگر ہماری تلواریں یزید کے ساتھ ہیں۔ ڈاکٹر صاحب سمجھتے تھے کہ ان کے ساتھ اہل پاکستان نے یہ کیا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے واقعی ایٹمی ٹیکنالوجی ایران، لیبیا اور نارتھ کوریا کو ٹرانسفر کی۔ اگر اس کو درست مان لیا جائے تو پھر پانامہ کیس میں ان کا نام سر فہرست ہونا چاہیے تھا کہ انہوں نے اس سے اربوں ڈالر کما لیے مگر ایسا تو کچھ نہیں تھا حتیٰ کہ امریکہ نے بھی آج تک ان کے خفیہ اثاثوں پر ایک لفظ نہیں کہا۔ ڈاکٹر صاحب کو کہا گیا تھا کہ آپ پاکستان کی خاطر یہ الزامات قبول کر لیں ورنہ ہمارا ایٹمی پروگرام لیبیا کی طرح جہازوں پر لاد کر امریکہ پہنچایا جائے گا جس کے بعد انہوں نے یہ قربانی دی۔ انہوں نے خود کہا تھا کہ اگر پیسہ کمانا میرا مقصد ہوتا تو میں دنیا بھر سے جتنا چاہتا پیسا کما سکتا تھا۔
موجودہ حکومت کی بزدلی اور بے حسی کا یہ عالم ہے کہ وہ بعد از مرگ بھی ڈاکٹر صاحب کے ناکردہ گناہوں کو معاف کرنے کے لیے راضی نہیں ہے کسی حکومتی کارندے نے ان کے جنازے میں شرکت نہیں کی۔ وزیراعظم ان کی تدفین کے وقت لاہور میں ایک سیرت کانفرنس میں اپنے حالات زندگی بیان فرماتے رہے۔
ڈاکٹر صاحب کے سینے میں کئی اہم ریاستی راز تھے جنہیں وہ اپنے ساتھ لے گئے۔ وہ گزشتہ نصف صدی سے پاکستان کی سیاست کے اعلیٰ ترین سطح سے واقف ہونے کے ساتھ ساتھ عسکری قیادت کے ساتھ بھی وابستہ تھے مگر کسی نے بھی ان کے ساتھ وفا نہیں کی اور انہیں مشکل وقت میں بیچ منجدھار تنہا چھوڑ دیا۔ آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے۔