ہمارے ملک کی سیاست کو کیا ہو گیا ہے؟ ہمارے سیاست دان اس ملک کو کس طرف لے کر جا رہے ہیں؟ہم لوگ بچپن سے سنتے آرہے ہیں کہ لوگ جادو ٹونے کرتے ہیں مگر یہ پہلی با ر سیاست میں سن رہے ہیں کہ حکومت جادو ٹونے سے چل رہی ہے۔ مریم نواز نے یہ بیا ن دے کر پوری قوم کو حیران کر دیا ہے۔ اب مریم کے پاس ایسا کون سا ثبوت ہے جس کی وجہ سے انہوں نے یہ بیان دے دیا یہ عمران خان یہ ملک جادو ٹونے سے چلا رہے ہیں ؟ پھر حکومتی وزراء کے طرف سے ردعمل بھی آیا اور انہوں نے بھی مریم کو سیاسی چڑیل کہہ دیا۔ جادوئی گلاس والی بھی کہہ دیا۔ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ایک سیاسی تھیٹر ہو رہا ہے اور عوام یہ سارا تماشا دیکھ رہی ہے۔
ملک میں بے شمار مسائل ہیں لیکن حکومت اور اپوزیشن اس طرف توجہ نہیں دے رہی بلکہ عوام کو اپنی اپنی بین سنا رہے ہیں مگر ملکی اور عوامی مسائل وہیں کے وہیں ہیں۔ آئی ایس آئی کے سربراہ کی تقرری کے معاملے کو بھی اس حکومت نے ایک ایشو بنا کر رکھ دیا ہے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے کہ کسی ایجنڈے کے تحت ہو رہا ہے کیونکہ جو بات بند کمرے میں ہونی چاہیے وہ بات اب میڈیا پر ہو رہی ہے۔ میں اس بارے میں مزید کچھ نہیں کہہ سکتی کیونکہ یہ ہمارے سب سے بڑے اور قابل احترام ادارے کی بات ہے۔
اس کے بعد اگر ہم بات کریں تو بلوچستان میں بھی ایک سیاسی تھیٹر چل رہا ہے جس میں پرویز خٹک کی تمام کوششیں ناکام ہو گئی ہیں ناراض اراکین نے پرویز خٹک سے جام کمال کے مستعفی ہونے تک بات چیت سے انکار کر دیا ان اراکین نے صاف صاف کہہ دیا کہ مائنس جام کمال کے سوا کوئی آپشن نہیں۔ اس سیاسی تھیٹر کے اثرات بلوچستان کی عوام پر ہو رہے ہیں۔ مگر حکومت کو ان کی کوئی فکر نہیں۔سندھ میں سپیکر سندھ اسمبلی کی ضمانت مسترد ہو چکی ہے اور نیب کی طرف سے ان کی گرفتاری کیلئے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ پنجاب میں وزیر اعلیٰ عثمان بزدار سب اچھا ہے کی آواز لگا کر اپنا ہی سیاسی تھیٹر لگا رہے ہیں؟ آئی ایم ایف اپنی شرائط پر عمل کرانے کیلئے حکومت پر دبائو ڈال رہی ہے جس کی وجہ سے مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے، آمدن اور قوت خرید میں اضافہ نہ ہونے کے برابر ہے زیادہ تشویش کی بات یہ کہ ڈالر کا ریٹ اس وقت ملک کی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے جس کی دجہ سے تیل اور ایل این جی گیس کی درآمد کا خرچ بڑھ گیا ہے اس کے اثرات عام عوام پر آتے ہیں ۔
وزیراعظم صاحب کا کہنا تھا کہ ہماری حکومتی پالیسیوں کا اصل ہدف غریب کو اوپر لانا ہے اور کروڑوں پاکستانیوں کو خوش حال بنانا ہے مگر اب تک ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ عوام کی حالت بد سے بدتر ہو چکی ہے۔حکومت اپنے اعداد وشمار سے باہر آئے اور زمینی حقائق کی طرف آئے تو اسے پتہ چلے کہ عوام کی حالت کیا ہے ؟کرونا کی وجہ سے تمام ممالک میں ٹیکسٹائل کا شعبہ ٹھپ ہو کر رہ گیا تھا جس کے سبب پاکستان کو اپنی ٹیکسٹائل مصنوعات بڑھانے کا موقع مل گیا تھا مگر حکومت نے اس طرف کوئی توجہ نہ دی اور کرونا کی وبا کم ہوتے ہی وہ ممالک پھر متحرک ہو گئے اور پاکستان نے اس شعبہ میں جو ترقی ہو سکتی تھی وہ ضائع کر دی ۔ اسی طرح زرعی شعبہ میں بھی یہی صورتحال رہی ۔
حکومتی وزراء عوام کو یہ خوش خبری سنائی دیتے ہیں کہ بس مشکل دن ختم ہونے کو ہیں مگر حقیقت اس کے برعکس ہے ملک میں سیاسی ابتری اور معاشی انتشار نے قوم کو با حیثیت مجموعی مصائب میں نہیں ڈالا بلکہ ہر گھر میں پریشانیوں ،اندیشوں اور مجبوریوں کی فضا مسلط کر دی ہے خواتین مردوں سے زیادہ اذیت میں ہیں غریب گھرانوں میں چولہے جلانے کیلئے اب دونوں کو محنت کرنا پڑ رہی ہے خواتین باہر کے کام کے ساتھ ساتھ گھر کے کام اور بچوں کے معاملات بھی دیکھ رہی ہے ، آٹا پھر سے مارکیٹ سے غائب ہونا شروع ہوگیا ہے ایک کے بعد ایک بحران اس حکومت کے سامنے آرہا ہے۔ اس وقت عام غریب آدمی کی حالت یہ ہو گئی ہے کہ اگر وہ ایک وقت کا کھانا اپنے بچوں کو دیتا ہے تو دوسرے وقت کے کھانے کی امید نہیں ہے۔ بچوں کو سکول نہیں بھیج سکتا۔غریب کی بیٹیاں گھر پر بوڑھی ہو رہی ہیں ان کی شادی نہیں ہو رہی ۔ اس پر کوئی سیاست دان بات نہیں کرتا بس اپنا سیاسی تھیٹر عوام کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔
اب حکومت کے پاس ایک سال ہے کیونکہ آخری سال میں الیکشن ہونا ہوتا ہے تو اس لئے حکومت اپنی چار سالہ کارکردگی کی بنا پر ہی ووٹ حاصل کرتی ہے اب حکومت خود سوچے کہ اس کی کارکردگی کیسی ہے ؟ ورنہ عوام نے تو الیکشن میں اپنی رائے دے کر اس حکومت کی کارکردگی بتا دینی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنے سیاسی تھیٹر بند کرے اور 24/7 عوام کی بہتری کیلئے کام کرے تب کہیں عوام تک اس حکومت کے ثمرات پہنچ سکتے ہیں ورنہ عوام کاوہی حال ہو گا جو پچھلے تین سال سے ہو رہا ہے۔