کراچی : سندھ کی نگراں حکومت نے فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل روکنے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ سے استدعا کی ہے کہ وہ اس ضمن میں دیے اپنے فیصلے کو کالعدم قرار دے۔اس اپیل پر فیصلے تک سپریم کورٹ کا فیصلہ معطل قرار دیا جائے۔
سندھ کی نگراں حکومت نے اپیل میں یہ مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ فوجی تنصیبات پر حملوں میں ملوث ملزمان کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہی ہونا چاہیے۔
درخواست میں مزید یہ بھی کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں سے متعلق فیصلہ سناتے ہوئے قانون اور حقائق کا درست جائزہ نہیں لیا۔
اس اپیل میں آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکریٹس ایکٹ کی ان دفعات کو بھی بحال کرنے کی استدعا کی گئی ہے جنہیں سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کالعدم قرار دیا ہے۔
سپریم کورٹ نے نو اور دس مئی کے واقعات میں گرفتار ہونے والے تمام ملزمان کے مقدمات فوجی عدالتوں سے فوجداری عدالتوں میں بھیجنے کا حکم دیا تھا۔ جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے چار ایک کی اکثریت سے سویلین کے خلاف ٹرائل فوجی عدالتوں میں چلانے کے خلاف دائر درخواستوں پر یہ فیصلہ سُنایا تھا۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں آرمی ایکٹ میں موجود شق ٹو ون ڈی کو بھی آئین سے متصادم قرار دیا تھا۔ یاد رہے کہ آرمی ایکٹ کی اس شق کے تحت عام شہریوں کا بھی فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیا جا سکتا ہے۔
عام شہریوں کے خلاف مقدمات فوجی عدالتوں میں بھیجنے کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر کی گئی درخواستوں میں کہا گیا تھا کہ سویلین کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانے کا اقدام آئین سے متصادم ہے اس لیے اسے کالعدم قرار دیا جائے۔
درخواست گزاروں میں سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ بھی شامل تھے۔ ان درخواستوں پر مجموعی طور پر 13 سماعتیں ہوئیں۔