اسلام آباد: اسلام آباد ہائیکورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کیخلاف سائفر کیس کے حکم امتناع میں 20 نومبر تک کی توسیع کردی گئی۔ اٹارنی جنرل سائفر کیس کے جیل ٹرائل سے متعلق کابینہ کی منظوری کے دستاویزات آج بھی پیش نہ کر سکے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے سابق وزیر اعظم وچیئر مین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی سائفر کیس میں جیل ٹرائل اور جج تعیناتی کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کی۔ اٹارنی جنرل منصور اعوان، ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل عدالت پیش ہوئے جبکہ چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سلمان اکرم راجہ اور لیگل ٹیم کے ارکان بھی عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔
سابق وزیر اعظم عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے عدالت سے کہا کہ میں بتانا چاہتا ہوں کہ گزشتہ سماعت پر سٹے آرڈر کے بعد کیا ہوا، میں ہائیکورٹ سے فوری اڈیالہ جیل پہنچا جہاں جیل ٹرائل جاری تھا، مجھے کافی دیر انتظار کے بعد اندر جانے کی اجازت ملی اور ایک گواہ کا بیان بھی ہو چکا تھا، ٹرائل کورٹ نے حکم امتناع کے بعد بھی ساڑھے 3بجے تک سماعت جاری رکھی۔سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ اڈٰالہ جیل میں اندر عدالت تک پہنچنے کیلئے بے شمار رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اٹارنی جنرل منصور اعوان نے اپنے دلائل کے آغاز میں شاہ محمود قریشی کی درخواست پر چیف جسٹس عامر فاروق کا فیصلہ پڑھ کر سنایا،سنگل بنچ نے لکھا کہ جیل ٹرائل بھی اوپن ٹرائل ہونا چاہئے جس پر جسٹس حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب، یہ فیصلہ ہمارے علم میں ہے کیا آپ نے ہمارا آرڈر پڑھا؟ اوپن ٹرائل کا مطلب اوپن ٹرائل ہے وہ ہر ایک کیلئے اوپن ہو، سنگل بنچ نے لکھا کہ پہلے ہو چکا ٹرائل کالعدم نہیں ہو گا، ہمیں بھی اُسی طرح مطمئن کریں جیسے آپ نے سنگل بنچ کو مطمئن کیا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ عدالت کے جج نے وزارت قانون کو جیل سماعت کیلئے خط لکھا، اس وقت چالان جمع ہو چکا تھا لیکن ٹرائل ابھی شروع نہیں ہوا تھا، ایف آئی اے نے سائفر کیس کا چالان 2 اکتوبر کو عدالت میں جمع کرایا، چالان جمع ہونے کے بعد خصوصی عدالت کے جج نے ایک اور خط لکھا، چیئرمین پی ٹی آئی کے سیکیورٹی خدشات کے باعث جیل سماعت کا نوٹیفکیشن ہوا۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب دوبارہ استفسار کیا کہ یہ جج صاحب اپنے خط میں کہہ کیا رہے ہیں؟ ان خطوط کی لینگوئج کچھ عجیب سی ہے، اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ شاہ محمود قریشی نے عدالت میں ٹرائل کی درخواست دی جو مسترد ہو گئی، اٹارنی جنرل نے چیئرمین پی ٹی آئی کی اپیل قابلِ سماعت ہونے پر اعتراض اٹھا دیا۔ جسٹس حسن اورنگزیب کا سلمان اکرم راجہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ اس کیس کو اس عدالت سے نکالنا چاہ رہے ہیں ۔
سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا ہم اٹارنی جنرل کی طرف سے اٹھائے گئے نکات پر جواب دیں گے۔ عدالت نے گزشتہ سماعت پر جو دستاویزات طلب کی تھیں وہ جمع نہیں کرائی جارہیں۔ شاہ محمود قریشی کی جیل ٹرائل کیخلاف درخواست کا اس کیس سے کچھ لینا دینا نہیں۔ جیل ٹرائل سے متعلق تمام عمل انتظامیہ سے متعلقہ ہے ، اس کی دستاویزات طلب کی گئی تھیں۔
اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا میں نے پیپر بک جمع کرائی ہے جس میں کابینہ کی منظوری سمیت دیگر متعلقہ دستاویزات ہیں۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا جب چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر فیصلہ آیا تب وہ اٹک جیل میں تھے۔ اٹک جیل سے عدالت میں پیش کرنے کیلئے سکیورٹی مسائل ہوسکتے تھے لیکن چیئرمین پی ٹی آئی کو اب اڈیالہ جیل منتقل کیا جاچکا ہے، صورتحال بدل چکی ہے۔ آپ نے یہ بتانا ہے کہ وزارت قانون کے جاری کردہ این او سی کو کس پراسس کے تحت جاری کیا گیا۔
عدالت نے مزید کہا کہ اس کیس میں جو سیکشن لگی ہے اس کے مطابق سزائے موت ہو سکتی ہے۔ اٹارنی جنرل نے مسکراتے ہوئے کہا جی معلوم ہے مگر میرا نہیں خیال سزائے موت ہو۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا اٹارنی جنرل اچھے آدمی ہیں، خود کہہ رہے پراسیکیوشن میں کامیاب نہیں ہوں گے۔
اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا پراسیکیوشن کی جانب سے ان کیمرا کی کارروائی کی استدعا کی گئی تھی۔ عدالت نے ریمارکس دیئے اس پر کیا آرڈر ہوا؟ وہ بہت اہم ہے۔ عدالت نے تو کہا ہے کہ اگر حساس دستاویزات آئیں تو صرف اس حد تک ان کیمرا کارروائی ہو گی۔ اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا جیل ٹرائل اور ٹرائل کے دوران پبلک کی عدم موجودگی دو مختلف باتیں ہیں۔ 12 ستمبر 2023 کو جج نے پہلی مرتبہ جیل میں ٹرائل کی درخواست کی تھی۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے اور وہ درخواست صرف ایک مرتبہ کے لیے تھی۔
دوران سماعت عدالت نے ریمارکس دیئے اٹارنی جنرل صاحب، ہم نے تو ویسے ہی سوال پوچھے تھے، آپ نے اس کی سمری ہی بنادی۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کابینہ کی منظوری موجود ہے، میں زبان دیتا ہوں وہ پیش کردوں گا۔ کابینہ کی منظوری سے پہلے دو اہم ایونٹس ہوئے۔ سات نومبر کو تین ،چودہ نومبر کو دو گواہان کے بیان ریکارڈ کئے گئے۔ عدالت نے استفسار کیا جب تین گواہان کے بیان ریکارڈ کئے گئے وہ ویسی ہی صورتحال میں ہوئے جیسے فرد جرم ہوئی؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا جی بالکل صرف وکلا کو عدالت میں جانے کی اجازت تھی۔ جیل میں عدالت کیلئے ویسی سہولیات موجود نہیں۔ جس کمرے میں پہلے سماعت ہوتی رہی اس میں صرف پندرہ افراد کی گنجائش تھی۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے اٹارنی جنرل صاحب یہ ہم پر چھوڑ دیں، کچھ چیزوں کو ہم نے انٹرپرٹ کرنا ہے۔ اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا سائفر کیس میں جیل ٹرائل اوپن ٹرائل ہے۔ کورٹ روم چھوٹا ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ کم افراد کی گنجائش کے باعث وہ کلوز ٹرائل ہے۔ اب جیل میں کورٹ پروسیڈنگ اور ٹرائل کے لیے پہلے کی نسبت بڑا کمرہ مل گیا ہے۔
عدالت نے سماعت 20 نومبر تک کیلئے ملتوی کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ہم اس کیس کو سوموار گیارہ بجے سنیں گے۔ سلمان اکرم راجہ نے استدعا کی کہ حکم امتناع میں بھی توسیع کی جائے جس پر عدالت نے سائفر کیس میں حکم امتناع میں 20 نومبر تک کی توسیع کردی۔
یاد رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے سائفر کیس کے جیل ٹرائل پر 16 نومبر تک حکمِ امتناعی جاری کر رکھا تھا جس میں توسیع کر کے اس کو 20 نومبر کر دیا گیا ہے۔