عمران خان پاکستان کی بڑی پارٹی کے بہت بڑے لیڈر ہیں وہ لیڈروں کی اس بریڈ یعنی نسل سے تعلق رکھتے ہیں جن کے فکروعمل اور قول وفعل کے بارے میں وثوق کے ساتھ کچھ بھی نہیں کہاجاسکتا ہے وہ کسی بھی وقت کچھ بھی کہہ کتے ہیں وہ کسی بھی وقت کچھ بھی کرسکتے ہیں ان کی ربع صدی کی سیاسی جدوجہد، اور 44ماہی دور اقتدار کا عمیق نظری مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ وہ ایک زیرک، انتھک اور مسلسل بولتے رہنے والے ایسے لیڈر ہیں جو اپنی شخصیت کے سحر میں لوگوں کو گرفتار کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں اپنے مقصد کے حصول کے لیے وہ کچھ بھی کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں زیادہ دورجانے کی بات نہیں ہے 10-9اپریل 2022 میں ایک تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں ایوان اقتدار سے رخصتی کے بعد سے ان کی تقاریر اور بیانیے کا مطالعہ بڑا دلچسپ ہے ویسے تو وہ کہہ مکرنیوں کو سیاسی حربہ اور سیاسی رہنما کا ہتھیار قرار دیتے رہے ہیں اسی لیے یوٹرن کی اصطلاح ان سے منسوب رہی ہے وہ آج ایک بات اور کل دوسری بات کہہ کر شرمندہ نہیں ہوتے بلکہ اسے سیاست کہتے رہے ہیں انہوں نے اقتدار سے رخصتی کے ساتھ ہی سائفر، رجیم چیخ اور میرجعفر کے نعروں سے امریکہ اوراسٹیبلشمنٹ کے خلاف ایک بیانیہ ترتیب دیا اور پورے جوش وخروش سے آزادی کی تحریک کا آغاز کیا۔ لانگ مارچ، اسلام آباد کے گھیراؤ کے نام پر ملک گیر مہم شروع کی۔ ویسے اس سے پہلے 25مئی کو ان کی لانگ مارچ کو حکومت نے بری طرح ناکام بنادیا تھا اس دفعہ وہ بھرپور فکری اور عملی تیاری کے ساتھ میدان میں اترے تھے لیکن انہیں خاطر خواہ کامیابی نہیں مل سکی۔ قاتلانہ حملے کے باوجود ان کی لانگ مارچ میں مطلوبہ عوام دیکھنے میں نہیں آئی۔ اب انہوں نے فنانشل ٹائمز کے ساتھ انٹرویو میں امریکہ مخالف، رجیم چینج بیانیے سے یادگار کہلائے گا کہ انہوں نے اپنے ہی وضع کردہ بلند بانگ بیانیے سے ایسا ٹرن لیا جسے یونہیں بلکہ وی ٹرن کہا جانا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔
عمران خان ہماری قومی سیاسی تاریخ کا ایک عجب یادگار کردار بنتے چلے جارہے ہیں انہوں نے کئی ایسی نئی باتیں سیاست میں متعارف کرائی ہیں جو انہی سے منصوب ہوکر رہ گئی ہیں جدید دور کی جدید اختراعات، سیاست میں، ابلاغ عام کے لیے، مخالفین کو بدنام کرنے اور بے عزت کرنے کے لیے انہوں نے بلاشبہ ایسی روایات کو فروغ دیا ہے کہ جو انہی کا خاصا بن کررہ گیا ہے ان کی دریافت کردہ اور فروغ یافتہ اختراعات کا مجموعی اثر یہ نکلا ہے کہ ایک پوری نسل، جس میں نوجوانوں اور جوانوں کے ساتھ
ساتھ پختہ کار شہریوں کی ایک قابل ذکر تعداد شامل ہے، اسی رنگ میں رنگی جاچکی ہے ان کا دشنام اور جھوٹ کا ایک ایسا کلچر ہمارے ہاں پنپ چکا ہے جس نے ہماری تہذیبی اور ثقافتی روایات کا بھرکس نکال دیا ہے عمران خان نے ربع صدی کی محنت ومشقت کے ساتھ جہاں جاری نظام ریاست اور سیاست کی کمزوریوں کو عیاں کردیا ہے اس نظام کے منفی پہلوؤں کو ہرخاص وعام پر آشکارہ کردیا ہے وہاں انہوں نے معاشرتی اور سماجی نظام کے مثبت پہلوؤں پر بھی کاری ضرب لگائی ہے وہ ایک طرف
ریاست مدینہ کا الاپ کرتے ہیں۔ سماجی انصاف کی بات کرتے ہیں۔ عمرفاروق ؓ اور دیگر اکابرین اسلام کے روشن فکرونظر اورعمل کا ذکر کرتے ہیں تو دوسری طرف وہ ناچ گانے کے کلچر کے فروغ میں بھی تن دہی سے لگے ہوئے ہیں ان کی تحریر وترویج، نشرواشاعت اور تقاریر اجتماع افراد یعنی ایک دوسرے سے ٹکرانے والے افکارواعمال سے مزین نطرآرہی ہیں انہوں نے جہاں عامۃ الناس کو شعور وآگہی سے
متعارف کرانے کی کاوشیں کی ہیں وہیں وہ بہت سی منفی روایات کے موجود اور داعی بھی نظرآتے ہیں ویسے تو آنے والا وقت اور مؤرخ اس بات کا فیصلہ کرے گا کہ وہ اور ان کی تحریک، خیرتھی یاشریاخیر وشر کا مجموعہ،لیکن سردست ان کے چاہنے اور ماننے والے انہیں تبدیلی کا استعارہ اور مسیحا سمجھتے ہیں ان کے فرمودات چاہے وہ یوٹرن ہوں یا وی ٹرن، پرایسے ہی یقین رکھتے ہیں جیسے کسی اوتار کے فرمودات پر اس کے پیروکار ایمان ویقین رکھتے ہیں۔ ان کے پیروکاروں میں پڑھے لکھے لوگ بھی شامل ہیں بلکہ زیادہ تر پڑھکے لکھے لوگ ہی ان کے فین کلب کے ممبر ہیں وہ کسی قسم کی دلیل سننے کے روادار نہیں ہوتے ہیں عمران خان کے ناقدین کے لیے لینا، انہیں ذلیل و رسوا کرنا ان کے شعائر میں شامل ہے دوسری طرف ان کے مخالفین انہیں یہودی ایجنٹ اور ملک دشمن بھی قرار دیتے ہیں ان کے مخالفین کی معتمدبہ تعداد یعنی کثیر تعداد انہیں ایسا ہی جھوٹا اور مکار قرار دیتے ہیں جو صرف اپنے اقتدار کے لیے کچھ بھی کرنے کے لیے ہروقت تیار رہتا ہے۔ انہیں یہودی ایجنٹ قرار دینے والے حکیم سعید کی تحریر اور ڈاکٹر اسرار احمد کی تقریر کے حوالے بھی دیتے ہیں جنہیں آسانی سے جھٹلانا ممکن نظرنہیں آتا ہے۔ ویسے عمران خان کی ربع صدی پر مشتمل جدوجہد اور ان کی اٹھان اور پھر اقتدار میں آنے والے احوال اور واقعات کو دیکھیں تو یہ حوالے درست اور سچ معلوم ہوتے ہیں کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ عمران خان مکروفریب کو ایک آلہ کار کے طورپر لے کر چل رہے ہیں جھوٹ کو سیاسی حربہ اور یوٹرن کو لیڈر کا خاصا قرار دے کر اپنی کہہ مکرنیوں پر پردہ ڈالنے کی مذموم کاوش بھی کرتے ہیں۔
ایک بات طے شدہ ہے کہ عمران خان نے سیاست میں لگے بندھے ضابطوں اور روایات کو ہوا میں تحلیل کردیا ہے سچ جھوٹ کے اشتراک سے ایسا پروپیگنڈہ کرنے میں اپنی مہارت کا سکہ جمالیا ہے جو مخالفین پر برق بن کر گرتی ہے۔ انہوں نے سیاست کو ڈرائنگ روم سے نکال کر سڑکوں اور چوراہوں پرفروغ دیا ہے۔ جلسے، جلوسوں میں رنگ بھرنے کی ٹیکنالوجی انہی کی متعارف کردہ ہے تحریک انصاف کے جلسے جلوسوں کی رنگ بازی بہت سے لوگوں کے دل ودماغ پر چھاجاتی ہے اور اسی سحر کا کمال ہے کہ عمران خان ایک پاپولر لیڈر کے طورپر اپنا رنگ جما چکے ہیں۔ سوشل میڈیا کو انہوں دودھاری تلوار کے طورپر استعمال کرنے کا فن نہ صرف سیکھ لیا ہے بلکہ اسے فروغ دے کر اپنے مخالفین کا ناطقہ بھی بند کرتے رہتے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ ان کے مکروفریب کے تانے بانے بکھرنے کو ہیں۔ لیکن ہمیں ماننا پڑے گا کہ عمران خان ایک عظیم لیڈر ہی چاہے انہیں خیر کا ساتھی کہیں یا شرکا پیامبر۔ہیں وہ بڑے لیڈر۔ ویل ڈن عمران خان۔