اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم کے بیان حلفی پر خبر شائع ہونے کے معاملے پر جنگ گروپ کے صحافی انصار عباسی، میر شکیل اور رانا شمیم کے خلاف باقاعدہ توہین عدالت کی کارروئی شروع کرنے کا فیصلہ سُنایا ہے۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ انصار عباسی اور رانا شمیم ثبوت لے آئیں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے خلاف کارروائی کروں گا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے صحافی انصار عباسی اور سابق جج رانا شمیم سمیت فریقین کو شوکاز نوٹسز جاری کرتے ہوئے سات دن میں جواب جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت 26 نومبر تک ملتوی کر دی ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ تنقید نہیں بلکہ عدالت پر حملہ ہے اہم حقائق کو جانچے بغیر ایک اتنے بڑے اخبار نے یہ حلف نامہ دے دیا۔ ہمارا احتساب ضرور کریں مگر نظام عدل کے رستے میں رکاوٹ نہ بنیں۔
انھوں نے صحافی انصار عباسی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ یا مسٹر شمیم ثبوت لے آئیں تو سابق چیف جسٹس کے خلاف کارروائی سے بھی بالکل ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کریں گے۔
سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے خبر شائع کرنے والے اخبار کے چیف ایڈیٹر کو روسٹرم پر بلا کر ریمارکس دیئے کہ آزادی اظہار رائے بھی بہت ضروری ہے لیکن انصاف کی فراہمی بھی اہم ہے، آپ کی رپورٹ نے لوگوں کے حقوق کو متاثر کیا ہے، اگر مجھے اپنے ججز پر اعتماد نا ہوتا تو یہ سماعت شروع نہ کرتا، میں نے سماعت اس لیے شروع کی کیونکہ ہم بھی احتساب کے قابل ہیں، اس عدالت کے ہر جج نے کوشش کی کہ عوام تک انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جائے ، اگر عوام کا اعتماد عدلیہ پرنا ہو تو یہ بہت الارمنگ ہے، آپ ایک بڑے میڈیا ہاؤس اور اخبار کے مالک ہیں، اگر کوئی حلف نامہ کہیں بھی دے دے تو کیا آپ اس کو پہلے صفحے پر چھاپ دیں گے؟۔
دوران سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے صحافی انصار عباسی سے استفسار کیا کہ یہ حلف نامہ تو جوڈیشل ریکارڈ کا بھی حصہ نہیں، 6 جولائی کو نواز شریف اور مریم نواز کو سزا ہوئی ، 16 جولائی کو اپیلیں فائل ہوئیں ، میں اور جسٹس عامر فاروق اس وقت بیرون ملک چھٹی تھے، جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کے سامنے کیس مقرر ہوا، اپیلوں کی پیروی خواجہ حارث کررہے تھے، کیا آپ نے خواجہ حارث سے پوچھا کہ الیکشن سے پہلے کیس سماعت کے لیے مقرر کرنے کی انہوں نے کوئی درخواست کی تھی؟، خواجہ حارث جانتے تھے کہ اسی روز سزا معطل ہو ہی نہیں سکتی ، عدالت نے سب سے جلدی کی تاریخ 31 جولائی کی دی کیونکہ ان دنوں چھٹیاں تھیں، جس جج کا نام آپ نے لکھا نہیں اور عدلیہ پر سوال اٹھا ہے، لوگوں کا عدالت پر اعتماد تباہ کرنے کے لیے باتیں بننا شروع ہو گئیں، کیا اس عدالت کا جج کہیں سے ہدایات لیتا ہے؟۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ میری عدالت کے جج کے گھر یا چیمبر میں کوئی رسائی لے رہا ہے تو میں اس کا جواب دہ ہوں، اگر رانا شمیم یا انصار عباسی ثبوت لے آئیں تو میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے خلاف کارروائی کروں گا۔
یاد رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار کے نواز شریف اور مریم نواز کی ضمانت کیس پر اثرانداز ہونے کے دعوے کا نوٹس لیتے ہوئے سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم سمیت صحافی انصار عباسی اور جنگ اور جیو گروپ کی انتظامیہ کو آج ذاتی حیثیت میں طلب کیا تھا۔
پاکستان کے سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس رانا شمیم کی طرف سے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اور پاکستان مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز کو سنہ 2018 کے عام انتخابات سے قبل ضمانت نہ دینے پر اصرار کرنے کے دعوے کی تردید کر چکے ہیں۔