ٍمجھے تاریخ کے جھروکوں میں جھانکنے کی عادت سی ہے ، کوئی واقعہ یا حادثہ تلاش کرنے کی جستجومیں رہتاہی ہوں ،تاکہ جان سکوں کہ تاریخ میں کیا ہوتارہا اور ہم نے کیا ان حادثات و واقعات سے کیا سبق حاصل کیا ،آج اسی جستجو میں لاہور کی تاریخ کے ورق گھنگالتے ہوئے میری نظر لاہور کے درختوں کی شامت حال پر پڑ گئی ۔ ان گنت درختوں سے بھرا لاہور کا مال روڈ اور انگریزوں کے دورمیں مال روڈ کے لیے ایک انگریز کی کہی ہوئی بات نظروں کے سامنے سے گزری ۔
پاکستانی مصنف کی کتاب ‘ ٹیلز آف اے فیبلڈ سٹی، سے انگریزوں کے زمانے کا ایک واقعہ پڑھنے کو ملا ، ہوا کچھ یوں کہ ” اس وقت کی انگریز حکومت کو یہ تجویزپیش ہوئی کہ مال روڈ خم ہوتی ہوئی چلتی ہے۔ اسے خط مستقیم میں استوار کیا جائے۔ اس منصوبے کی خاطر بہت سے درخت کاٹنے پڑتے۔ اس زمانے میں یہاں ایک انگریز فوجی کرنل نیپیر تعینات تھا۔ اس نے کہا کہ کلہاڑی کی زد میں آئے ہوئے درخت کی بددعا میں نہیں لینا چاہتا۔ سو وہ منصوبہ لپیٹ دیا گیا اور مال روڈ کے درخت بچ گئے۔ مگر جب انگریزوں کا دور گزر گیا اور دیسی لوگوں کا راج آیا تو درختوں کی بددعا کو انھوں نے ایک کان سنا دوسرے کان اڑا دیا۔ اور مال کو دو رویہ بنانے کے چکر میں کتنے درخت کاٹ ڈالے۔ اور پھر پھولوں کی کتنی کیاریوں کو اجاڑ ڈالا۔
اگر میں یہ کہوں تو بے جا نہ ہو گا کہ میرے استاد محترم میاں ندیم ملک کو لاہور کے درختوں ، پودوں ، پھولوں ،جنگلوں اور سن سب پر رہنے والے پرندوں سے عشق ہے ۔وہ اس عشق کی خاطر اپنے کالموں سے لیکر جسمانی قربانی تک بھی دینے کو تیار ہوتے ہیں لیکن ان درختوں کی چھاﺅں سے خود اور دوسروں کو محروم ہوتا نہیں دیکھ سکتے ۔جرمنی ماہر جنگلات پیٹر ہولیسین نے اپنی کتاب میں دعوا کیا ہے کہ درخت نہ صرف باتیں کرتے ہیں بلکہ ایک دوسرے سے جینے کی جنگ یا جینے کے لیے دوستی کا حق بھی ادا کرتے ہیں ۔ اس نظریہ کو انہوں نے اپنی حال ہی میں لکھی کتاب میں جنگل میں کٹے ہوئے درخت کا تذکرہ کرتے ہوئے سچ ثابت کیاہے ۔ پیٹر ہولیسیسن کو جنگل میں ایک کٹا ہو درخت ملا جو زمین سے محض چند فٹ ہی اوپر نکلا ہو اتھا ۔اس کا کہناہے کہ سالوں سے کٹنے کے باوجود درخت کو اس کے آس پاس کے ساتھی درختوں نے جڑوں کو خوراک فراہم کر کے زندہ رکھا ہوا تھا۔ان کا کہناہے کہ جنگل میں وہ اپنے جیسے درختوں اپنی نسل کے درختوں کو بچانے کے لیے مدد کرتے ہیں ۔ ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہیں ،۔ سب درخت اپنی جڑوں سے الیکٹرک سگنل کی طرح پیغامات بھیجتے ہیں ۔
لیکن کیا ہم پیٹر کی طرح ان درختوں کی زبان اور زندگی کو سمجھ سکے ۔نہیں کیونکہ ہمارے پاس ایسی حس موجود ہی نہیں ہے ۔ لاہور کے بڑے تعمیراتی منصوبوں کی وجہ سے لاہور سے نایاب پرندے ،جانور اور لاتعداد اقسام کے درخت جن میں کچنار، مول سری ، جامن ، شہتوت ،برگد،پیپل ،پت جن ،گاب ، ایرو،کیریا، ارجن، دھریک، گل نشتر، گلِ فانوس، سنبل، بیری اور جیسے درختوں کی اقسام میں سے متعدد کو بالکل ہی کھو چکے ہیں ۔ جو ہیں نئی تعمیراتی سرگرمیوں کی وجہ سے ان کی حالت بھی ایسی ہے کہ ہلکی سی آندھی چلنے پر گرنے کا امکان پیدا ہو جاتاہے ۔ان میں سے کئی اقسام اب صرف لاہور کے چڑیا گھر میں ہی مل سکتی ہیں ۔ باقی شہر سے ایسی اقسام کے اکا دکا درخت ہی دکھائی دیتے ہیں ۔لاہور میں درختوں کی گھنی ٹہنیوں میں پرندوں کے گھونسلے اب دیکھنے کو ملتے ہی نہیں ۔
لاہور کی شان سمجھا جانے والا باغ جناح تقریباََ ڈیڑھ سو سال سے اپنی آن بان لیے شہریوں کو پرسکون ماحول فراہم کرنے کے لیے سال کے ہر دن اور رات کوشش میں مصروف ہے ۔اس میں موجود نادر و نایاب درخت ہر آنے والے کو اسطرح خوش آمدید کہتے ہیں کہ آنے والے کو وقت گزرنے کا احساس تک نہیں ہوتا۔ لاہور کی تاریخ سے واقف شخصیات یہ بہتر جانتی ہیں کہ باغ جناح کے درختوں سے اتارا گیا شہد اعلی ٰ پیکنگ کے ساتھ دستیاب ہوتاتھا۔ جس کاٹھیکہ شیخ محمد حسین مرحوم کے پاس تھا جو اپنے ملازمین کے ساتھ مل کر ان درختوں سے خالص شہد پیک کرواتا تھا۔اسکی وفات کے بعد یہ ٹھیکہ ان کے بھائی اور بھتیجے کو ملتا رہا ۔لیکن اب یہ نظام ختم ہوگیا اور اس کے ساتھ ہی لاہور کا خالص شہد بھی نایاب ہوگیا ۔
لاہور کی نہر کا حال بھی باقی لاہور سے مختلف نہیں آبادی میں اضافے کو بہانہ بنا کر کنٹریکٹرز اور حکومتی مشینری نے ان درختوں کو آہستہ آہستہ ایسا ختم کیا جیسے وہ سرے سے تھے ہی ۔نہر کے ساتھ ساتھ چند عشرے پہلے سفر کرنے والے احباب اوراگر آج کے سفر کا حال بتائی تو وہ یہ کہیں گے کہ کل اور آج کے سفر میں زمین و آسمان کا فرق پڑ گیا ہے ۔ نہر کے ساتھ چلتے چلتے ٹھنڈے ہوا کے جھونکوں کی بجائے گرم مرطوب ہوا آپ کے ساتھ چلتی ہے ۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہماری حکومتیں تو نااہل تھیں ہیں ان کو پڑھی لکھی مشینری بھی نااہل ہی ملی ، محکمہ زراعت ، محکمہ تعمیرات میں ایسے افسران آئے جن کو یہ تک نہیں پتہ کہ ان درختوں کو کاٹ کر سڑکیں ، پُل ،اور بڑی عمارتیں بنانے کا کتنا نقصان ہے ۔ جو مشورے یہ بیوروکریٹ اور سیکریڑیز حکومت کو دیتے حکومتی وزیر ان پر بغیر سوچے سمجھے عمل کرتی رہیں ، حکومت کی نااہلی کی بے شمارمثالیں دی جاسکتی ہیں ۔
لاہور کی کوئی سڑک بھی ایسی نہیں ہو گی جو کئی بار توڑی نہ گئی ہو ۔ بلکہ احباب کی نظر سے ایسی بھی سڑکیں گزری ہیں جو آج تعمیر ہوئی اگلے ہی روز توڑ دی گئی ۔صرف اسلیے کہ مشیران خاص کا مشورہ تھا کہ اب اس کو ایسے توڑو تو زیادہ فائدہ ہو گا۔ ٹھیکہ داروں نے لاہور کا ٹھیکہ لے کر ٹھیکے داروں جیسا کام کیا ۔ اور یہ سب ہی جانتے ہیں کہ ٹھیکے پر کرائے گئے کام کا حال کیا ہوتاہے ۔خیر بات کہاں سے شروع ہوئی تھی کہاں تک جا پہنچی بات صرف یہ ہے کہ لاہور جس کو باغوں کا شہر ہونے کا شرف حاصل تھا ۔ حکومتی نااہلی کی وجہ سے کنکریٹ کا شہر ہونے کی طرف بڑی تیزی سے گامزن ہے ۔
اس کی قدرتی خوبصورتی کے دلدادہ ایسی شخصیات بھی ہیں جو اس کو بچاتے بچاتے جہان ِ فانی سے کوچ کر گئے ، ان شخصیات کے آخری ایام میں جہاں دنیا کی اور چیزوں کا دکھ ساتھ لے گئے وہیں لاہو ر کے درختوں پر چہچہانے والے پرندوں کے گھونسلوں کے اجڑنے کا بھی دکھ ان کے ساتھ ہی راہ عدم ہوا ۔ پطرس بخاری اپنی کتاب میں لاہور کا تذکرہ یوں کرتے ہیں ©”اب لاہور کے چاروں طرف بھی لاہور ہی واقعہ ہے۔ اور روزبروز واقع تر ہورہا ہے۔ ماہرین کا اندازا ہے، کہ دس بیس سال کے اندر لاہور ایک صوبے کا نام ہوگا۔ جس کادارالخلافہ پنجاب ہوگا۔ یوں سمجھئے کہ لاہور ایک جسم ہے، جس کے ہر حصے پر ورم نمودار ہورہا ہے، لیکن ہر ورم مواد فاسد سے بھرا ہے۔ گویا یہ توسیع ایک عارضہ ہے۔ جو اس کے جسم کو لاحق ہے“۔
ایک عالمی تنظیم کےسروے کے مطابق لاہور میں درختوں کی کٹائی کی وجہ سے 2007سے لیکر آب تک 75فیصد درختوں کی کٹائی کی جا چکی ہے ۔ اس سلسلے میں انہوں نے گوگل میپ سے اس کٹائی کو ظاہر بھی کیا ہے ، کاٹے جانے والے درختوں کی جگہ پر لگائے جانے والے درختوں کی تعداد توبہت بتائی جاتی ہے تاہم ابھی تک کاٹے گئے درختوں کی کمی پوری نہیں کی جاسکی ۔
بس اب یہ ورم تو آبادی کے ساتھ بڑھتے ہی رہنے ہیں مگر آج کے ہمارا فرض ہے کہ ان ورموں کا علاج عمارتوں سے نہیں بلکہ درختوں سے کریں ، جہاں عمارتیں ضروری ہیں وہاں بنائیں سارے شہر کو کنکریٹ کا شہر نہ بنائیں ۔ کیونکہ ان ورموں کا علاج صرف اور صرف درختوں کی بڑھوتری میں ہے نا کہ کنکریٹ کی بلند وبالا عمارتوں سے۔ ایک ایک کر کے کٹنے کی وجہ سے اب درخت تنہا ہو گئے ہیں جو اپنا دفاع نہیں کر سکتے وہ دوسرے درختوں کا کیسے کریں گے ۔ پیٹر ہولیسیسن نے تو کہا تھا کہ یہ ایک دوسرے کے برادری کا خیال رکھتے ہیں ،کٹنے والے درخت سے باتیں کرتے ہیں اس کو زندہ رہنے میں مدد دیتے ہیں لیکن کون کس کا ساتھ دے اب تو انسانوں نے درختوں کی بستیاں اور برادریاں ہی اجاڑ دیں ، کٹے ہوئے درخت کیسے اپنی برادری کے درخت کی مدد کریں ۔
اب درختوں کو بچانے کے لیے انسانوں کو ہی قدم اٹھا نا ہوگا ، کیونکہ صدیوں سے درخت اپنی برادری کو بچاتے بچاتے ہمت ہار گئے ہیں ۔لیکن یہ قدم دیر سے نہیں بلکہ جلدی اٹھانے ضروری ہیں ورنہ درختوں کی طرح ہمارے پاس بھی ان کو بچانے کے لیے ہمت نہیں ہوگی ۔اگر ایسا ہوا تو درختوں کی بددعا سے کوئی نہیں بچے گا ۔