لاہور: بنیادی عوامی ضروریات دینا ریاست کی ذمہ داری ہے۔جس میں ایک صاف پانی مہیا کرنا بھی ہے۔ لیکن پاکستان میں عوام زنک اور آرسینک زدہ پانی پینے پر مجبور ہیں جس وجہ سے ہزاروں افراد اسپتالوں کا رخ کررہےہیں ۔صرف عام شہری ہی اس سے تکلیف کا شکار نہیں بلکہ خود سرکاری دستاویزات بھی انتظامیہ کے مسخ چہرے کی منظر کشی کرتی نظر آتی ہیں۔9برس قبل جاری ہونے والی پاکستان کونسل آف ریسرچ رپورٹ کے مطابق لاہور میں پانی کے تمام سامپل 50فیصدجراثیم تو100فیصد آرسینک کی وجہ سے پینے کے لئے محفوظ نہیں تھے۔
پنجاب حکومت نے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے صحت کے ضامن پانی کی آسان دستیابی کے بجائے اپنی نااہلی کو ”لیگل کور“دینے کے لئے اس میں موجود آرسینک ،سائنائڈ، لیڈ ، زنک اور کیڈمیم کی مقدار کا معیار ڈبلیو ایچ او کی متعین کر دہ حد سے زائد مقرر کر دیا ہے۔صاف پانی کے اندوہناک حالات جانتے بوجھتے ہوئے ذمہ داران کی جانب سے نوٹفیکیشن نمبرL-7532 کے ذریعے ”دھاندلی“کے معاملے کو سامنے رکھتے ہوئے ”نیو نیوز“نے واسا کا موقف بھی جانا۔
نیو نیوز کے سوال پر محکمہ ماحولیا ت بھی منہ چھپانے پر مجبور ہوگیا۔معاملے کی سنگینی کو بھانپتے ہوئے سیکرٹری ماحولیات کیپٹن (ر)سیف انورنے وزیر اعلیٰ کی میٹنگ کابہانہ بنا کر راہ فراراختیار کی ،توڈائریکٹر ماحولیات نے کچھ دیر کاررکردگی کے ”راگ الاپنے کے بعد“نوٹفکیشن کی صحت کو ہی مشکوک قراردے دیا۔متعلقہ افسران کی نااہلی اور عدم دلچسپی دیکھنے کے بعد ”ٹیم نیو“نے ماہرین صحت سے رابطہ کیا ۔
انکا کہنا تھا کہ صاف نیت کے ساتھ جس چیز کا ارادہ کرلیا جائے وہ ایک دن ضرورمراد پاتی ہے۔حکومت نے سڑکوں کے جال بچھانے کا خواب دیکھا تو آج وہ جال کسی حد تک نظر بھی آتا ہے۔۔۔کاش!حکومتی ترجیحات میں صاف پانی کا نمبر پہلے ہوتا۔
میاں عمران ارشد، نیونیوز،لاہور