لاہور:پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کی طرف سے 15 میڈیکل اور ڈینٹل کالجز کی رجسٹریشن منسوخ کرنے اور وہاں پر جاری داخلے فوری طور پر روکنے کے حکم پر طلبا و طالبات اور تعلیمی شعبہ سے وابستہ افراد میں تشویش کی شدید لہر دوڑ گئی ہے اور پاکستان ایسوسی ایشن آف پرائیویٹ میڈیکل اینڈ ڈینٹل انسٹی ٹیوشن نے ہنگامی اجلاس نے حکومت سے فوری طور پر مطالبہ کیا ہے کہ اگر حکومت نے اس معاملے پر سنجیدگی نہ دکھائی تو پرائیویٹ کالجز جو اس ملک کے 60 فیصد ڈاکٹرز پروڈیوس کر رہے ہیں وہ تالا بندی پر مجبور ہو جائیں گے ۔
تفصیلات کے مطابق پی ایم ڈی سی کی ایڈہاک کونسل کے غیر قانونی اقدامات سے ملک بھر کے ہزاروں میڈیکل طلبہ اور اساتذہ میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے اور ناتجربہ کار لوگوں کی میڈیکل شعبے کے ساتھ چھیڑ چھاڑ سے حکومتی ساکھ مزید کمزور ہو رہی ہے۔کرونا وائرس کے اس مشکل دور میں پاکستان سمیت ہر ملک کو ڈاکٹرز، پیرامیڈیکل سٹاف ، ہسپتال اور میڈیکل کالجز کی سخت ضرورت ہے، لیکن افسوس کہ یہاں اس شعبہ میں مسائل ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے۔
14مئی 2020کو پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (PMDC) کی ایڈ ہاک کونسل نے 15 میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجز کی رجسٹریشن منسوخ کر کے وہاں جاری داخلے فوری طور پر روکنے کا حکم دے دیا ، جس سے 100سے زائد رجسٹرڈ پرائیویٹ میڈیکل کالجز و یونیورسٹیز میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔جبکہ یہ وہی کالجز ہیں جن کی رجسٹریشن خود حکومت پاکستان نے پاکستان میڈیکل کمیشن(PMC)کے پلیٹ فارم سے کروائی تھی۔ مذکورہ بالا تمام کالجز کی بلڈنگ، انفراسٹرکچر ، ڈاکٹرز اور دیگر سہولیات تک کی انسپیکشن کے بعد ہی انہیں رجسٹرڈ کیاگیا تھا۔ لیکن ان کالجز کی غیرقانونی طور پر رجسٹریشن منسوخ کرکے ہزاروں طلبہ ، اساتذہ اور کالج مالکان کو اس کڑے وقت میں مزید مشکل میں ڈال دیا گیا۔
مزید برآں تازہ ترین صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے پاکستان ایسوسی ایشن آف پرائیویٹ میڈیکل اینڈ ڈینٹل انسٹی ٹیوشن(PAMI) کی ایگزیکٹو کمیٹی کا آن لائن ہنگامی اجلاس ہوا جس کی صدارت پروفیسر ڈاکٹر سید طارق سہیل ( صدر PAMI) نے کی، جبکہ دیگر ممبران میں پروفیسر شبیر ناصر(نائب صدر)، پروفیسر ڈاکٹر باقر عسکری(صدر سندھ چیپٹر)، جی اے نورانی(صدر کے پی کے چیپٹر)، ڈاکٹرجاوید اصغر(صدر پنجاب چیپٹر)، ڈاکٹر ریاض شہباز جنجوعہ(صدر آئی سی ٹی)، ڈاکٹر غضنفر علی جوائنٹ سیکرٹری، پروفیسر ڈاکٹر محمد رضی، خاقان وحید خواجہ (جنرل سیکرٹری) اور پروفیسر ڈاکٹر چوہدری عبدالرحمن (ممبرPAMI)نے شرکت کی ۔
اجلاس میں نجی شعبہ میڈیکل کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا، کمیٹی نے موجودہ صورتحال اور خاص طور پرگزشتہ 3،4سال میں اس شعبہ کے ساتھ جو کھلواڑ ہوا ہے اُس پر تشویش کا اظہار کیا اور نتیجہ اخذ کیا کہ اگر یہی صورتحال رہی تو پاکستان کا، شعبہ طب کے حوالے سے دنیا بھر میں جو اعتماد اور بھروسہ ہے وہ جلد ختم ہوجائے گا۔اس کے علاوہ پاکستانی ڈاکٹرز جنہیں امریکا، یورپ اور دیگر ممالک میں خاص اہمیت حاصل ہے، ہم اس سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔کمیٹی نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اگر حکومت نے اس شعبہ پرترجیحی بنیادوں پر توجہ نہ دی تو وہ دن دور نہیں جب پرائیویٹ میڈیکل کالجز جو اس وقت سالانہ 60فیصد سے زائد ڈاکٹر پروڈیوس کر رہے ہیں ، تالا بندی پر مجبور ہو جائیں گے اور شعبہ ہیلتھ کیئر میں حکومت پاکستان کا ایک بازو ناکارہ ہو جائے گا۔
اجلاس میں حکومت سے پرزور مطالبہ کیا گیا کہ حکومت نجی میڈیکل شعبہ پر خصوصی توجہ دے ورنہ یہ شعبہ بھی باقی شعبوں کی طرح سیاست کی بھینٹ چڑھ جائے گا۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے ”سنٹرل ایڈمیشن پالیسی“ کو ختم کیا جائےتاکہ تعلیمی ادارے، طلبہ اور والدین سکھ کا سانس لے سکیں اور ہر طالب علم کو اجازت ہونی چاہیے، کہ وہ حکومت کے دیے گئے معیار اور میرٹ کے مطابق اپنی مرضی سے جہاں مرضی داخلہ لے۔ اس سلسلے میں حکومت داخلوں کی پرانی پالیسی پر غور کرے۔ اس کے علاوہ اجلاس میں ایڈہاک کونسل کے غیر قانونی اقدامات کی بھی مذمت کی گئی اور ایگزیکٹو ممبرز کی جانب سے شدید احتجاج کیا گیا کہ حکومت ون سائیڈڈ گیم کھیل رہی ہے۔ایڈہاک کونسل کے جو چیزیں دائرہ اختیار ہی میں نہیں ہیں وہ اس حوالے سے کیسے فیصلے مسلط کر سکتی ہے۔
اس حوالے سے سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلوں (بتاریخ 20اپریل 2020) کا بھی حوالہ دیا گیا۔ اسی بنیاد پر حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ بغیر دیر کیے منسوخ کی جانے والی رجسٹریشن کے ایڈہاک کونسل کے فیصلے کو معطل کیا جائے اوراُن کو فوری طور پر بحال کیا جائے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ اس حوالے سے ایڈہاک کونسل میں نجی کالجز کی تعداد کے حساب سے نمائندگی دینے کا بھی مطالبہ کیا گیا تاکہ تمام اسٹیک ہولڈرز کے مشترکہ مفادات کے مطابق درست فیصلے ہوں۔ پی ایم ڈی سی کے صدر کی تنخواہ، مراعات اور دیگر لوازمات کو غیر قانونی قرار دیا گیا اور کہا گیا کہ جب پی ایم ڈی سی کا صدر خود کسی کمیٹی کا حصہ بن جائے تو کیسے ممکن ہے کہ فیصلوں میں شفافیت برقرار رہے۔
مزید برآں شرکاءنے حکومت سے مطالبہ کیا فوری طور پر نجی کالجز سے لی گئی بنک گارنٹی واپس کی جائے تاکہ اس مشکل دور میں اساتذہ کی تنخواہوں کے اخراجات ادا کیے جا سکیں۔ اس حوالے سے اجلاس میں درج ذیل فیصلے کیے گئے۔
1 ۔ایڈہاک کونسل کے غیرقانونی فیصلوں کے خلاف قانونی جنگ لڑی جائے گی۔
2 ۔PAMIکے صوبائی چیپٹرز اپنے اپنے صوبوں میں میٹنگز کال کریں گے اور تمام ممبرز کو آئندہ حکمت عملی کے حوالے سے اعتماد میں لیں گے۔
3 ۔PAMIکی ایگزیکٹو کمیٹی کی ذیلی کمیٹی (جس کے ممبران پروفیسر ڈاکٹر چوہدری عبدالرحمن(ہیڈ)، خاقان وحید خواجہ(ممبر)، ڈاکٹر باقر عسکری (ممبر)، ڈاکٹر غضنفر علی(ممبر) ہیں) بنائی گئی۔ جو چارٹرڈ آف ڈیمانڈ تیار کرے گی اور میڈیا کمپین کی نگرانی کرے گی۔
4 ۔اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا ہے کہ ”سنٹرل ایڈمیشن پالیسی“کے حوالے سے خدشات کو بھی ہائی لائیٹ کیا جائے اور اس کے نقصانات کے حوالے سے حکومت کو آگاہ کیا جائے۔
5 ۔مطالبات تسلیم نہ ہونے کی صورت میں عید الفطر کے فوری بعد پریس کانفرنس اور میڈیا کمپین کا آغاز کیا جائے اور آئندہ کے لائحہ عمل کا بھی شیڈول دیا جائے۔