گڈز ٹرانسپورٹرز کی ہڑتال سے تقریبا60ارب روپے کا نقصان ہو چکا ہے، لاہور چیمبر

گڈز ٹرانسپورٹرز کی ہڑتال سے تقریبا60ارب روپے کا نقصان ہو چکا ہے، لاہور چیمبر

لاہور :  لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے قائمقام صدر امجد علی جاوا نے حکومت سے گڈز ٹرانسپورٹ کی ہڑتال ختم کرانے کےلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ تجارتی اشیاء، خام مال اور اشیائے خوردنوش کی آمدورفت رکنے سے صورتحال تشویشناک حد تک خراب ہو گئی ہے۔

لاہور چیمبر میں ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گڈز ٹرانسپورٹرز کی ہڑتال کی وجہ سے تجارتی سر گرمیوں کو تقریباً60ارب روپے کا نقصان ہو چکا ہے ۔ روزانہ اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں کے چولہے ٹھنڈے پڑے ہیں ۔ برآمدی مال پھنس جانے کی وجہ سے برآمدات کو بھاری نقصان ہو رہا ہے جو پہلے ہی کم ہو رہی ہیں جبکہ جلد خراب ہو جانے والی اشیاءتباہ ہو رہی ہیں جس سے تاجروں کو بھاری مالی خسارہ برداشت کرنا پڑے گا۔

امجد علی جاوا نے کہا کہ کراچی پورٹ ٹرسٹ اورپورٹ محمد بن قاسم پر کنٹینر رکھنے کی جگہ ختم ہو چکی ہے جس کی وجہ سے مزید مال کی آمد بھی رک گئی ہے ۔اشیائے خوردونوش کی ترسیل بند ہونے سے ملک میں فوڈ سکیورٹی کے مسائل پید ا ہونے کا خدشہ ہے ۔ فیکٹریوں میں تیار مال گوداموں میں پڑا ہے ۔ پاکستانی برآمدات پہلے ہی کم ہو رہی ہیں جبکہ تجارتی خسارہ بڑھتا چلا جارہا ہے۔ رواں مالی سال کے پہلے دس ماہ کے دوران ملک کا تجارتی خسارہ 26.55ارب ڈالر تک جا پہنچا ہے جو گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں تقریباٍ40فیصد زائد ہے ۔ انہوںنے کہا کہ اگر پاکستانی مصنوعات عالمی منڈی تک نہ پہنچ پائیں تو آرڈر منسوخی کے چانسز بڑھ جائیں گے اور برآمدات میں مزید کمی واقع ہو گی اور پاکستانی عالمی منڈی میں اپنا مزید حصہ کھو دے گا اور ایکسپورٹرز کو بھیانک مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا ۔

انہوں نے کہا کہ اگر گڈز ٹرانسپورٹرز کی ہڑتال فوری ختم ہو جاتی ہے تو بھی پورٹس پر کنٹینرز کے جم غفیر کو ہینڈل کرنے میں تقریباً دو ماہ کا عرصہ درکار ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ متعلقہ سرکاری اداروں کااس انتہائی سنگین صورتحال پر خاموش تماشائی کا کردار تشویشناک اور جان بوجھ کر معیشت کو بھاری نقصان پہنچانے کے مترادف ہے ۔

حکومت گڈز ٹرانسپورٹ سے مذاکرات کر کے ہڑتال فوری طو رپر ختم کرائے وگرنہ مینو فیکچرنگ سیکٹر کی کمر ٹوٹ جائے گی ۔ برآمدات کم ترین سطح پر آ جائیں گی اور ملک میں اشیائے خوردونوش اور دیگر اشیائے ضروریات کا خوفناک بحران پیدا ہو جائے گا۔

مصنف کے بارے میں