دی ہیگ: عالمی عدالت میں جانے کا شوق بھارت کے گلے پڑ گیا اور کلبھوشن کی پھانسی رکوانے کے لیے کمزور دلائل کا سہارا لیا لیکنپاکستان کے وکلا نے ٹھوس اور بھرپور دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ ویانا کنونشن بھارتی دہشت گرد کلبھوشن یادیو کا کیس عالمی عدالتِ انصاف کے دائرہ کار میں نہیں آتا بھارتی درخواست مسترد کی جائے۔ پاکستانی وکلا نے کہا کہ بھارتی جاسو س خود اس بات کا اعتراف کر چکا ہے کہ وہ بھارتی ایجنسی "را" کے کہنے پر پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث رہا۔
عالمی عدالت کو اس کے اعترافی بیان کی ویڈیو دیکھنی چاہیے۔ پاکستانی وکلا نے یہ بھی واضح کیا کہ پاکستان دہشت گردوں سے نہیں ڈرے گا عوام اور سرزمین کی حفاظت کے لیے تمام قانونی ذرائع استعمال کرے گا۔
اس سے پہلے بھارتی وکلا نے موقف اختیار کیا کہ کہیں پاکستان فیصلہ آنے سے پہلے ہی کلبھوشن کو پھانسی نہ چڑھا دے اسے قونصلر رسائی دی جائے۔ عالمی عدالت انصاف نے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا۔
یاد رہے 10 اپریل کو آئی ایس پی آر کی جانب سے ایک پریس ریلیز جاری کی گئی جس میں گرفتار بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو پاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچانے کے الزام میں پھانسی کی سزا کا اعلان کیا گیا۔ پریس ریلیز میں بتایا گیا تھا کہ کلبھوشن یادیو کے خلاف پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کی گئی جبکہ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے کلبھوشن یادیو کو سزا سنائی۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے مجرم کی سزائے موت کی توثیق کی۔
کلبھوشن کی گرفتاری اور اعترافی بیان
واضح رہے بھارتی نیول کمانڈر کلبھوشن یادیو کو 3 مارچ 2016 کو بلوچستان سے گرفتار کیا گیا تھا۔ کلبھوشن نے اپنے اعترافی بیان میں کہا تھا کہ وہ ’را‘ کے لیے کام کرتا تھا اور بلوچستان آنے سے قبل وہ ایران کے سرحدی علاقے چابہار میں موجود تھا۔کلبھوشن نے یہ بھی اعتراف کیا کہ وہ بلوچ علیحدگی پسندوں سے رابطے میں تھا اور اسے 2013 میں خفیہ ایجنسی 'را' میں شامل کیا گیا اور وہ اس وقت بھی ہندوستانی نیوی کا حاضر سروس افسر ہے۔
کلبھوشن یادیو کی گرفتاری کے ساتھ ہی پاکستان میں بھارتی خفیہ ایجنسی را کا بڑا نیٹ ورک بھی پکڑا گیا جو پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں ملوث تھا اور سی پیک منصوبے کو ثبوتاژ کرنے کی منصوبہ بندی کی تھی۔
اپنے شہری کی گرفتاری کے بعد بھارت کی طرف سے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ کلبھوشن نے بھارتی بحریہ سے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی تھی اور اُس کے بعد سے اُن کا حکومت سے کوئی تعلق نہیں۔ بھارتی وزرات خارجہ کی طرف سے کلبھوشن تک سفارتی رسائی کے لیے حکومت پاکستان سے رابطہ بھی کیا گیا تھا۔
نیو نیوز کی براہ راست نشریات، پروگرامز اور تازہ ترین اپ ڈیٹس کیلئے ہماری ایپ ڈاؤن لوڈ کریں