اسلام آباد: ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز کورٹ میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی وارنٹ معطلی کی درخواست پر سماعت ہوئی ۔ایڈیشنل سیشنز جج ظفر اقبال نے عمران خان کی درخواست پر سماعت کی۔
الیکشن کمیشن کے وکیل سعد حسن اور آئی جی اسلام آباد عدالت میں پیش ہوئی ۔جج ظفر اقبال نے استفسار کیا آئی جی صاحب جواب دیں اب تک وارنٹ گرفتاری پر عملدرآمد کیوں نہیں ہوا؟ آئی جی نے جواب دیا میرا نام ڈاکٹر اکبر ناصر خان ہے ۔
جج صاحب نے پوچھا آپ کیا کہتے ہیں استثنیٰ دینا چاہیے یا نہیں؟ آئی جی اسلام آباد نے جواب دیا ہمارے آفیسرز کو ملزم سے ملنے نہیں دیا گیا۔ کارکنان کی جانب سے طاقت کے استعمال سے پولیس کو روکا ہوا ہے۔ ہمارے سینئر آفیسرز وہاں پر موجود ہیں ۔ ہماری پولیس فورس کا سامنا پتھروں، پیٹرول بم، ڈنڈوں سے کیا گیا ۔
آئی جی نے کہا کہ میں ان 65 اہلکاروں کی جانب سے بھی حاضر ہوا ہوں جو زخمی اسپتالوں میں ہیں ۔ہمیں اس سے پہلے کبھی اس کا سامنا نہیں کرنا پڑا ماسوائے جہاں دہشتگردی تھی ۔ہمارے اہلکاروں کے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھا ۔
آئی جی اسلام آباد نے زخمی افسران اور اہلکاروں کی فہرست اور موقع کی تصاویر پیش کردیں۔ انہوں نے کہا کہ رائے ہے کہ اگر ایک شخص کو رعایت دینا چاہتے ہیں تو باقی 22 کروڑ کو بھی دیں ۔جو قانون میرے لیے ہے وہی سب کیلئے ہے ۔
آئی جی نے کہا کہ آئین پاکستان کا آرٹیکل 25 کہتا ہے قانون سب کیلئے برابر ہے ۔ آئی جی اسلام آباد کے بیان پر تحریک انصاف کے وکلاء نے شور شرابا کیا۔وکلا نے کہا آئی جی سیاسی گفتگو کر رہے ہیں ۔ عدالت نے پوچھا املاک کو کتنا نقصان پہنچا؟ آئی جی نے کہا پولیس کی 10 گاڑیاں، واٹر کینن جلائی گئی ہیں۔
آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ نقصان کا تخمینہ لاہور میں لگایا جا رہا ہے ۔ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ملزم کی جانب سے یہ تیسری درخواست ہے۔ ہر دفعہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے اس عدالت کے حکم کو قانونی قرار دیا ۔اسلام آباد ہائیکورٹ نے اس عدالت کو کوئی ہدایات جاری نہیں کیں ۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے ملزم کو ٹرائل کورٹ سے رجوع کرنے کی ہدایت کی ۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ فرق اتنا ہے کہ آج انڈرٹیکنگ پر ملزم کے دستخط ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ پولیس وہاں کیا کرنے گئی؟ پولیس عدالت کے احکامات پر عملدرآمد کرانے کیلئے گئی۔ پہلی بار پولیس گئی تو کہا گیا عمران خان موجود نہیں، پولیس واپس آگئی ۔ دوسری بار ڈی آئی جی جاتے ہیں تو ان پر پتھراؤ کیا جاتا ہے ۔