لفظ ایک عجب طلسم ہے۔ ایک لفظ سَو سَو دَر کھولتا ہے— معانی کے — امکانات کے!! انسان کا شرف یہ ہے کہ اس کے پاس لفظ ہے۔ لفظ کا معقول استعمال اسے اشرف بناتا ہے، غیر معقول الفاظ اسے ارزل کر دیتے ہیں۔ انسان کی قدر قیمت اس کے منہ سے ادا ہونے والے الفاظ سے متعین ہوتی ہے۔ انسان کا انسان سے ربط اور رابطہ الفاظ کے دم سے ہے۔
قرآن بھی مجموعہ الفاظ ہے— لیکن وہ الفاظ جو خالقِ کائنات نے نازل کیے ہیں— خواہ ان الفاظ کی تفہیم ہو یا نہ ہو، ان لفظوں کو فقط دہرا دینا ہی انسان کو ثواب کا مستحق بنا دیتا ہے۔ خالق کے کلام کی کماحقہ تفہیم کسے ہو سکتی ہے؟ ان مقدس الفاظ کی کلی تفہیم صرف اسی ذاتِ اقدسؐ کے پاس ہے جس کے قلبِ اطہر پر یہ کلام اتارا گیا ہے۔ امتی تو محض اپنے عصری علوم اور شعور کے مطابق اپنی سی کوشش ہی کر سکتا ہے۔ ایک امتی کی استعداد دوسرے امتی سے مختلف ہوتی ہے—کوئی امتی کسی پر حجت نہیں۔ اس لیے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ جو ہماری فہمِ قرآن کے مطابق پورا نہ اترے? وہ گمراہ ہے۔ قرآنی الفاظ کا مدعا لسانی اور عصری تحقیق نہیں بلکہ ہدایت ہے۔ ہدایت? ہدایت مانگنے والوں کے لیے ہے۔ راہِ ہدایت ? ہدایت یافتہ لوگوں کے ہم راہ ہو جانے سے ملتی ہے— جیسے صداقت صادقین کی معیت سے نصیب ہوتی ہے— کونو مع الصادقین۔
لفظ لازم نہیں کہ آواز کا محتاج ہو۔ کائناتِ ہست و بود کا پہلا لفظ "کن" ہے۔ "کن" آواز نہیں بلکہ ارادہ ہے۔ آواز کے لیے لازم ہے کہ کوئی آواز دینے والا ہو اور کوئی سننے والا ہو۔ دل کے بحرِ بے پیدا کنار میں پیدا ہونے والی لہر بھی لفظ ہی کہلائے گی۔ دل میں پیدا ہونے والے خیالات جلد یا بدیر الفاظ کی صورت اختیار کر لیتے ہیں— جسے لفظوں کی نگہبانی عزیز ہو اسے اپنے دل کا نگہبان ہونا چاہیے۔ احساسات ہوں یا خیالات— کبھی مخفی نہیں رہتے، جہاں مناسب سماعت دیکھتے ہیں? لفظوں کی صورت میں ڈھل جاتے ہیں۔
یہ دنیا عالمِ اشیاء ہے— اورعالمِ اشیاء پر عالمِ اسماء کی حکمرانی ہے۔ اسماء میں کسی شئے کو حرکت دینے اور کسی متحرک شئے کو حالتِ سکون میں لانے کی قوت موجود ہے۔ کسی جرنیل کے منہ سے نکلا ہوا ایک لفظ ہوتا ہے جو شہروں ، شہروں مین بسنے والے انسانوں اور کھیت کھلیانوں کو فائر Fireکر دیتا ہے۔ دوست کو دوست اور دشمن کو دشمن بنانے والے چند الفاظ ہوتے ہیں۔ دو انسانوں کو رشتہ زوجیت میں پرونے والے چند الفاظ ہی ہوتے ہیں۔ ان لفظوں کی حرمت رشتوں کو تقدس دے دیتی ہے۔ اس قدر مقدس رشتے کو تباہ و برباد کرنے والے بھی چند الفاظ ہی ہوتے ہیں۔ دوسروں کی عزتِ نفس کو روند دینے والے بھی کچھ زہریلے الفاظ ہوتے ہیں، اور کسی کو مایوسی کے پاتال سے امید کی صبح ِ روشن میں لے آنے والے بھی چند حوصلہ افزا الفاظ ہی ہوتے ہیں۔
انسانی معاشرت میں اخلاق کی عمارت الفاظ کی بنیاد پر اٹھائی گئی ہے۔ الفاظ ہی کوئی مجلس بپا کرتے ہیں اور الفاظ ہی کسی نشست کو برخاست کر دیتے ہیں۔ انسان کیالفاظ کی نشست و برخاست ہی اس کے درجہ اخلاق کا تعین کرتی ہے۔ دل میں پلنے والے احساسات و خیالات کو الفاظ کی صورت میں ڈھلنے سے پہلے اسے ایک فلٹر سے گذارنا ہوتا ہے، اور اس فلٹر کا نام ہے برداشت!! برداشت کا فلٹر جس قدر حساس ہوگا? انسان اسی قدر بہتر درجہ اخلاق پر فائر ہوگا۔ ایک پڑھے لکھے شخص کو لوگوں کے چہرے پڑھنے کا ہنر بھی آنا چاہیے— اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اس کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ کسی کے دل پر اور چہرے پر کیا تاثرات چھوڑ رہے ہیں۔ اگر آپ کے الفاظ سن کر آپ کا مخاطب خوف سے نکل کر عافیت میں داخل ہو رہا ہے تو آپ ایک بااخلاق انسان ہیں، اس کے برعکس اگر آپ کے الفاظ کسی کے چہرے کو منقبض کر رہے ہیں تو اپنے اخلاق کا چہرہ دیکھ لینے میں کوئی حرج نہیں۔ دل اور چہرے کا باہم تعلق ہے۔ دل کے شکن چہرے کو شکن آلود کر دیتے ہیں۔ شکن آلود جبیں خوش کن الفاظ کا رس بھی چھین لیتی ہے۔ خوش گوار الفاظ خوش گوار ماحول پیدا کرتے ہیں۔ ناپسندیدہ الفاظ ماحول کو تلخ کر دیتے ہیں۔ ہماری تعلیم ہمیں اتنا ہنر ضرور دے کہ ہم ان الفاظ کی پہچان کر سکیں جو ہمارے مخاطب کی سماعت پر گراں گزرتے ہیں۔
اگر ہمیں اپنے الفاظ اور اخلاق کا معیار جانچنا مقصود ہو تو بس یہ دیکھ لیں کہ ہم اپنے ماتحت لوگوں سے کن الفاظ سے مخاطب ہوتے ہیں۔ اگر کوئی اپنے ماتحت کے لیے "تم" اور "تو" کے الفاظ استعمال کرتا ہے تو وہ خود کو بااخلاق ہرگز تصور نہ کرے۔ چھوٹے بندے کی عزتِ نفس کا خیال رکھنا ایک بڑے بندے کا کام ہے۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں "کسی غریب کی عزتِ نفس کو کبھی غریب نہ سمجھو" مراد یہ کہ عزت سب کی سانجھی ہوتی ہے۔ اس دنیا میں ہر کوئی عزت کا طلب گار ہوتا ہے۔ دوسروں کی عزت کریں تاکہ وہ بھی آپ کی عزت کر سکیں۔ کسی کو "آپ" کہہ کر مخاطب کریں گے تو وہ بھی آپ کو یقیناً "آپ" ہی کہے گا۔ کسی کی بداخلاقی کو یہ اجازت ہرگز نہ دیں کہ وہ آپ کو اخلاق کے پیڈیسٹل سے معزول کر سکے۔
خوش کن الفاظ کے ساتھ ساتھ لہجے کا خوش گوار ہونا بھی ضروری ہے۔ الفاظ میٹھے ہوں اور لہجہ تلخ — اسے ہی طنز کہتے ہیں۔ طنز حسد کی کوکھ سے جنم لیتی ہے۔ صحیح معنوں میں بااخلاق ہونے کے لیے محض خوبصورت الفاظ پر دسترس کافی نہیں بلکہ باطن کا تزکیہ بھی ضروری ہے۔ منافقت اس اخلاق کے مظاہرے کو کہتے ہیں جس کا مدعا کسی مفاد کا حصول ہو۔ خدمتِ خلق کے باب میں یہ جاننا ضروری ہے کہ مخلوق کی خدمت سب سے پہلے اچھے الفاظ سے کی جاتی ہے— کسی کی پلیٹ میں کھانا ڈآلنے سے پہلے اس کی طشتِ سماعت میں شیریں الفاظ کا لنگر ڈالنا ضروری ہے۔
ایک مصنف الفاظ کی کرشمہ سازیوں سے بخوبی آگاہ ہوتا ہے۔ جہانِ معانی میں رسائی الفاظ کے دم سے ہے۔ الفاظ کی انگلی پکڑ لیں تو یہ آپ کو جہانِ معانی کی سیر کرواتے ہیں۔ بس لفظ کا ذرا احترام کرکے دیکھیں— یہ کیسی محترم وادیوں کی سیر کرواتا ہے۔ بعض اوقات لکھاری لکھنا کچھ اور چاہتاہے لیکن لفظوں کے باطن میں موجزن سیلِ معانیاسے کہیں اور بہا کر لے جاتا ہے— ایک ایسی وادی معنی کی طرف جو کبھی اس کی چشمِ تصور میں بھی نہ تھی۔
گنجین معنی کا طلسم اس کو سمجھیے
جو لفظ کہ غالب مرے اشعار میں آوے
لفظ کے ساتھ وفا کریں تو یہ آپ کے ساتھ وفا کریں گے۔ عالمِ امر اور عالمِ خلق کے درمیان لفظ ایک برزخ کی حیثیت رکھتا ہے۔ دعا بھی مجموعہ الفاظ ہیں۔ فانی کا باقی کے ساتھ رابطہ گو لفظوں کا محتاج نہیں لیکن اس رابطے میں ربط الفاظ پیدا کرتے ہیں— دعا کے الفاظ انسان کو اپنے رب کے قریب کر دیتے ہیں۔ لفظ وہ کلید ہے جو دلوں کے قفل کھول سکتی ہے۔دلوں پر مرتسم ہونے والے الفاظ کاغذ پر لکھے ہوئے الفاظ سے زیادہ مقدس و محترم ہوتے ہیں۔ مظلوم کی آہ کسی لفظ کا لباس پہنے بغیر بھی چشمِ زدن میں فرش سے عرش تک سفر طے کر جاتی ہے۔
پیغمبرِ اخلاق رسول کریم خاتم النبیینؐ نے فرمایا "مجھے جوامع الکلم عطا کیے گئے ہیں" شہرِ علم میں الفاظ اپنے تمام تر معانی کے ساتھ موجود ہیں— کل الفاظ کل معانی کے ساتھ یہاں جلوہ گر ہیں۔ وحی الٰہی براہ راست حدیثِ قدسی کی صورت میں ہو یا بذریعہ جبرائیل ؑ بصورتِ قرآن— سب الفاظ اپنے معانی کی ابتدا سے انتہا تک موجود ہیں۔ رہتی دنیا تک عقل و دانش کے تمام الفاظ اپنی حقیقت کی سند پانے کے لیے مدینتہ العلم کی طرف رجوع کرتے رہیں گے۔ تخلیق و تکوین کے تمام الفاظ شہرِ علم میں میسر آئیں گے— اور بلاغت کی نہج درِ علم سے دستیاب ہوگی!!