اسلام آباد: پنجاب انتخابات اور ریویو اینڈ ججمنٹ ایکٹ سے متعلق کیس کی سماعت میں اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں بھارتی سپریم کورٹ کے 2002 کے کیوریٹو ریویو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انصاف دینا کسی فیصلے کے حتمی ہونے سے کم اہم نہیں مکمل انصاف ہی خدائی منشا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہمارے سامنے ایک مکمل انصاف کا ٹیسٹ ہے اور بھارتی قانون میں بھی یہی ہے۔اپیل میں کیس کو دوبارہ سنا جاتا ہے، ہمیں اس مسئلے کو حل کرنا چاہیے، سوال یہ ہے نظر ثانی کس بنیاد پر ہونی چاہیے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے پنجاب انتخابات اور ریویو اینڈ ججمنٹ ایکٹ سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے اپنے دلائل میں عدالت کو بتایا کہ ہائیکورٹ سے سپریم کورٹ تک فریقین کو اپنا کیس پیش کرنے کا پورا موقع ملتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ نے نظرثانی کا دائرہ کار محدود رکھا ہے۔ آرٹیکل 184/3 میں سپریم کورٹ براہ راست مقدمہ سنتی ہے۔ آرٹیکل 184/3 میں نظرثانی کا دائرہ کار اسی وجہ سے وسیع کیا گیا ہے ۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ نظرثانی کا دائرہ وسیع ہونے سے فریقین عدالت کو پوری طرح قائل کر سکیں گے۔دائرہ کار محدود ہونے پر کئی متاثرہ افراد نظرثانی دائر ہی نہیں کرتے تھے۔ قانون میں وسیع دائرہ کار کیساتھ لارجر بنچ کی سماعت بھی اسی نظریے سے شامل کی گئی ہے۔
لارجر بنچ کا مطلب یہ نہیں کہ پہلے فیصلہ کرنے والے ججز اس میں شامل نہیں ہونگے۔ تین رکنی بنچ فیصلہ کرے تو نظرثانی میں ان کے ساتھ مزید دو ججز کیس سنیں گے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آپ کے دونوں نکات نوٹ کر لیے اب آگے بڑھیں۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ میں دس منٹس دلائل دینا چاہتا ہوں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو ہم مہمان کے طور پر بلاتے ہیں ۔ہم ابھی آپ کا کیس نہیں سن رہے۔اٹارنی جنرل صاحب پہلے دلائل دے رہے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ کل سپریم کورٹ کا 184(3) پر نقطہ نظر دوبارہ منظور الہی کیس والا ہو گیا تو اس سے آج کے قانون پر فرق نہیں پڑتا، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ کا پوائینٹ نوٹ کر لیا ہے آگے چلیں۔
اٹارنی جنرل نے بھارتی سپریم کورٹ کے 2002 کیوریٹو ریویو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بھارتی سپریم کورٹ نے کہا انصاف دینا کسی فیصلے کے حتمی ہونے سے کم اہم نہیں، فیصلہ میں کہا گیا کہ مکمل انصاف ہی خدائی منشاء ہے، جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ نظر ثانی تو نظر ثانی ہی رہتی ہے اسے اپیل کا درجہ تو پھر بھی نہیں حاصل۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ مسابقتی ایکٹ، الیکشن کمیشن فیصلوں کے خلاف اپیل موجود ہے، سنگین غداری کیس میں بھی اپیل کا حق دیا گیا۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ان تمام قوانین میں فیصلہ کے خلاف اپیل کا ذکر ہےیہاں اس قانون میں آپ نظر ثانی کو اپیل بنانے کی بات کر رہے ہیں ۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہمارے سامنے ایک مکمل انصاف کا ٹیسٹ ہے اور بھارتی قانون میں بھی یہی ہے،اپیل میں کیس کو دوبارہ سنا جاتا ہے۔ ہمیں اس مسئلے کو حل کرنا چاہیے،ہم 184(3) کے خلاف کسی بھی ریمیڈی کو ویلکم کریں گے اگر اس کو احتیاط کے ساتھ کیا جائے، سوال یہ ہے نظر ثانی کس بنیاد پر ہونی چاہیے،عدالت نے سماعت پیر کے روز ایک بجے تک کے لیے ملتوی کر دی۔