لاہور : ترجمان تحریک انصاف رؤف حسن نے کہا ہے کہ جو کچھ 9 مئی کو ہوا ہم اس کی مذمت کرتے ہیں لیکن دوسری جانب سے بھی درگزر کرنا چاہیے۔چیف جسٹس انصاف دینے کے بجائے صبر کی تلقین کر رہے ہیں۔ طارق ملک سے دھاندلی سے متعلق رائے لی جا رہی تھی لیکن وہ مستعفی ہوگئے۔
وی نیوز کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں رؤف حسن نے کہا کہ اگر کسی سے غلطی ہوگئی ہے تو درگزر کر کے ملک آگے چلے گا کیوں کہ اگر تقسیم کریں گے تو ملک اور ریاست کو نقصان ہوگا۔
رؤف حسن کا کہنا تھا کہ ملک کو اس مشکل وقت سے نکالنے کے لیے فہم و فراست کی ضرورت ہے لہٰذا تفریق نہ کی جائے اس سے نقصان ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ جو کچھ ہوا ایسا ہونا نہیں چاہیے تھا لیکن اب جو کچھ ہو رہا ہے وہ بھی ناقابل یقین ہے کیوں کہ اس کی وجہ سے بہت سے بے گناہ گھرانے مشکل وقت سے گزر رہے ہیں۔
ترجمان پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ ’جو بچیاں جیل میں ہیں ان کا کیا قصور ہے، میرا نہیں خیال کہ ان لوگوں کے ذہن کے کسی گوشے میں بھی یہ چیز ہوگی کہ انہیں تشدد کا راستہ اختیار کرنا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ اس مشکل وقت میں تقسیم سے ملک اور ریاست کا نقصان ہوگا اور تفریق کرنے سے ریاستی ادارے کمزور ہوتے ہیں جس سے گریز کرنا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر پی ٹی آئی اس مشکل وقت سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہوگی۔
پی ٹی آئی کے سیکریٹری اطلاعات رؤف حسن نے کہا سپریم کورٹ دباؤ میں آکر اپنے فیصلوں پر عملدرآمد نہیں کروا پارہی اور اب چیف جسٹس کی بے بسی کا یہ عالم ہے کہ وہ صبر کرنے کا تلقین کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ حقیقت ہے کہ ہم نے سپریم کورٹ سے امید لگائی تھی لیکن اب ریاست کے تینوں ستون کھوکھلے ہوچکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’چیف جسٹس کی یہ بات سن کر تکلیف ہوتی ہے کہ وہ انصاف نہیں دے سکتے لہٰذا لوگ صبر کریں‘۔ انہوں نے سوال کیا کہ باقی جو لوگ سوالی بن کر جائیں گے کیا ان سے بھی کہا جائے گا کہ ظالم کا ظلم برداشت کرو صبر کرو یا کسی کی بیٹی اغوا ہو جائے تو اسے بھی صبر کا کہیں گے؟
اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’پارلیمنٹ کا فورم عدلیہ کو کمزور کرنے کے لیے استعمال کیا گیا، عدلیہ کو جب کمزور کریں گے، ججز کو برا بھلا کہیں گے تو ریاست کا مستقبل کیا ہوگا وہ تو شاید ماضی سے بھی بدتر نکلے‘۔
سابق چئیرمین نادرا طارق ملک کے استعفے پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ طارق ملک ایک قابل آدمی ہیں اور وہ ورلڈ بینک کی نوکری چھوڑ کر پاکستان آئے تھے، ان سے آئندہ انتخابات میں دھاندلی کرنے کے لیے معلومات لی جارہی تھیں لیکن انہوں نے ضمیر کی آواز سنی اورمستعفی ہوگئے‘۔
پاکستان الیکشن کمیشن کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’الیکشن کمیشن میں جو شخص بیٹھا ہوا ہے اس کا ضمیر ہی نہیں، اس نے آئین کی خلاف ورزی اور سپریم کورٹ کی حکم عدولی کی اور وہ وہاں اس لیے بیٹھا ہوا ہے کہ وہ تحریک انصاف کو چیتنے نہ دے سکے‘۔
رؤف حسن کے مطابق اسٹیبلیشمنٹ کا سیاسی کردار لڑ کر نہیں ختم کیا جاسکتا، اس کے لیے بیٹھ کر بات چیت کر کے لائحہ عمل مرتب کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ آئیڈیل بات تو یہی ہے کہ ان کا سیاست میں کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے لیکن حقیقت یہی کہ پاکستان کی تاریخ میں ان کا سیاسی کردار رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’اگر اسٹیبلشمنٹ خود اس کا احساس کر لے تو یہ خوش آئند ہے لیکن اگر ایسا نہیں ہوتا تو حکومت کو ان کے ساتھ بیٹھ کر انہیں آئین میں لکھے کردار تک محدود کیا جاسکتا ہے، اسٹیبلشمنٹ کا سیاسی کردار لڑائی کر کے نہیں ختم کیا جاسکتا، میں تو چاہتا ہوں کہ ہر مسئلے کا حل مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے ہی نکالا جائے‘۔
پی ٹی آئی ترجمان نے واضح کیا کہ جو لوگ تحریک انصاف چھوڑ کر دوسری جماعتوں میں چلے گئے ہیں ان کے لیے پارٹی کے دروزے بند ہوگئے ہیں۔
رؤف حسن نے کہا کہ ’جو لوگ تحریک انصاف چھوڑ کر نئی جماعت میں گئے ہیں ان کے لیے خس کم جہاں پاک، جو لوگ پارٹی کو برے وقت میں چھوڑ گئے ہیں ان کے لیے پارٹی میں کوئی گنجائش نہیں تاہم جنہوں نے پارٹی کے عہدے چھوڑ دیے ان کے متعلق پارٹی کوئی فیصلہ کرلے گی‘۔
انہوں نے کہا کہ ’عمران خان کو اس نہج تک پہنچانے والے مشیروں نے سب سے پہلے پارٹی چھوڑی اور ڈوبتی کشتی سے چھلانگ لگالی، جنہوں نے پارٹی چھوڑی اور سیاست سے کنارہ کشی کا اعلان کرنے کے بعد نئی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کی اب وہ کبھی واپس نہیں لیے جائیں گے‘۔
رؤف حسن نے کہا کہ کچھ لوگ جو پریشر کے تحت گئے ہیں وہ بہت تھوڑے لوگ ہیں اور ان کی پارٹی میں واپسی کے بارے میں سوچا جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اب الیکٹبلز کے ساتھ جانا ممکن نہیں ہے اب نئے نوجوان قیادت کو اوپر لایا جائے گا جو کہ پارٹی کی اصل طاقت ہیں اور وہی پارٹی کو آگے لے کر چلیں گے۔
رؤف حسن نے کہا کہ ہم سیاسی جماعت ہیں اور سیاسی طریقے سے اپنے اہداف حاصل کرتے ہیں اس لیے ہم نے اسٹیبلیشمنٹ یا حکومت سے بات کرنے کے لیے کمیٹی بنائی ہے اور ہم دونوں سے بات کرنے کو تیار ہیں لیکن بامعنی مذاکرات اسٹیبشلمنٹ کی مرضی کے بغیر نہیں ہوسکتے کیوں کہ طاقت کا منبع وہی ہے۔