ملک میں سیاست کے نام پر گزشتہ تین ماہ سے جاری تماشہ ا پنے عروج پر ہے،سیاستد انوں نے اس عرصہ میں ثابت کر دیا ہے کہ انہیں عوام، عوامی مسائل و مشکلات کی رتی بھرپروا نہیں،پٹرول ڈیزل گیس بجلی مہنگی ہونے کے بعد عوام مسائل کے بھنور میں ہیں مگر کسی کو عوامی تکلیف مسائل مشکلات سے تعلق دکھائی نہیں دے رہا ،ہر کوئی اپنا اقتدار مستحکم کرنے کے خبط میں مبتلا ہے،مرکز اور پنجاب میں حصول اقتدار اور استحکام اقتدار کی جنگ جاری ہے،جو تاحال بے نتیجہ ہے اور حالات ایسے ہی رہے تو مستقبل قریب میں حل ہوتے دکھائی بھی نہیں دیتے۔
آبادی کے لحاظ سے ملک کاسب سے بڑا صوبہ ملکی انتخابی سیاست میں بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے،مرکز میں حکومت سازی کے لئے پنجاب کامیابی کی کنجی ہے،یہاں سے قومی اسمبلی کی پچاس فیصد سے زائد نشستیں ہیں پنجاب میں کامیابی حاصل کرنے والی جماعت ہی مرکز میں مضبوط حکومت بناتی ہے،پنجاب کے بغیر کوئی بھی جماعت مرکز میں حکومت بنا بھی لے تو کامیابی سے چلانا نا ممکنات میں سے ہے،1988ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے سادہ اکثریت سے مرکز میں حکومت بنائی مگر پنجاب میں نواز شریف وزیر اعلیٰ بنے جس کے بعد پنجاب بینظیر بھٹو کیلئے پورا عرصہ اقتدار ’’نو گو ایریا‘‘ رہا،میاں منظور احمد وٹو نے ن لیگ کے غلام حیدر وائیں مرحوم کیخلاف عدم اعتماد کامیاب کرائی تو ن لیگ کی مرکزی حکومت بھی ڈانواں ڈول رہی جب تک کہ وٹو حکومت قائم رہی۔
عام تاثر یہی ہے کہ جو بھی جماعت پنجاب میں جیت جائے اس کے لیے مرکز میں حکومت بنانا اور چلانا دونوں آسان ہوتے ہیں، بعض ماہرینِ سیاست کا یہ بھی مانناہے کہ پنجاب ہار کر اگر مرکز میں حکومت بنا بھی لی جائے تو اس کو چلانا مشکل ترین ہو گا،یہی وجہ ہے تحریکِ انصاف کے ارکان اسمبلی نے قومی اسمبلی کی نشستوں سے استعفے دیدئیے ہیں مگر پنجاب اسمبلی میں میدان سجائے بیٹھے ہیں اور صوبائی حکومت کیلئے مشکلات کھڑی کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے،تحریک انصاف پنجاب میں اپنی جماعت کی حکومت بنانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے تو دوسری جانب مسلم لیگ ن کو پنجاب میں اپنی روائتی حاکمیت برقرار رکھنے میں مشکلات کا سامنا ہے،گزشتہ طویل عرصہ سے پنجاب میں حکومت کرنے والی ن لیگ پر ایسا وقت کم ہی آیا، تاہم حالیہ انتخابات میں وہ واضح اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی جس کے نتیجے میں تحریک انصاف نے آزاد ارکان اور اتحادیوں کی حمایت سے پنجاب میں حکومت سازی کی،مگر ن لیگ آخر کار تحریک انصاف کے منحرف ارکان کی حمائت سے تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کو اکھاڑنے میں کامیاب ہو گئی مگر آج تک حکومت سازی نہ کر سکی اور اب بجٹ اس کیلئے مشکل ترین ہو رہا ہے،پہلے تو حمزہ شہباز کا حلف تماشا بنا رہا،سپریم کورٹ کے حکم پر یہ قضیہ حل ہوا تو کابینہ کی تشکیل ممکن دکھائی نہ دے رہی تھی،پھر وزرا نے حلف اٹھا لیا مگر ان کو محکمے تفویض نہ کئے جا سکے،پنجاب کابینہ آج بھی نامکمل ہے،وزیر ہیں مگر قلمدان سے محروم،ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں کابینہ پر اختلاف کیا رنگ دکھاتا ہے یہ بہت جلد عوام کے سامنے آجائے گا۔
سپیکر چودھری پرویز الٰہی کیساتھ وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے روز جو سلوک کیا گیا سب نے دیکھا حالانکہ وہ بھی وزارت اعلیٰ کے امیدوار تھے،اب بجٹ تماشا جاری ہے،سپیکر چودھری پرویز الٰہی کا موقف ہے چیف سیکرٹری پنجاب او ر آئی جی اسمبلی میں پیش ہوں اور ارکان اسمبلی پر تشدد،ایوان میں داخلے،کارکنوں کی گرفتاری،تشدد کے حوالے سے وضاحت اور معذرت کریں،کسی بھی سرکاری ملازم کی طلبی سپیکر کا آئینی حق ہے مگر حکومت اس کے آڑے آ رہی ہے،حکومت مذاکرات کیلئے کمیٹی تشکیل دے دیتی ہے مگر معاہدہ ہونے کے بعد اس سے از خود پیچھے ہٹ جاتی ہے،جس کے نتیجے میں معاملات سلجھنے کے بجائے الجھتے جا رہے ہیں،حکومت سرکاری افسروں کا تحفظ کر رہی ہے جبکہ سپیکر اپناآئینی حق استعمال کر رہے ہیں،اس کھینچا تانی میں دو روز تک اجلاس کے باوجود بجٹ پیش نہیں کیا جا سکا،یہ بھی دلچسپ بات رہی کہ بجٹ بن گیا مگر وزیر خزانہ کا فیصلہ نہ ہو سکا،اب یہ ذمہ داری اویس لغاری کو سونپی گئی ہے مگر باقاعدہ اجلاس ہونے کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا،اب حکومت نے اپنا ایک الگ بجٹ اجلاس بلا لیا ہے ،بجٹ ایک اسمبلی ایک مگر اجلاس دو ، سنا جا رہا ہے کہ وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز نے اس معاملہ پر بھی عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے،سیاسی فیصلے اگر عدالتیں کرتی رہیں اور ’’ووٹ کو عزت‘‘دلانے کے دعویدار اگر ہر سیاسی اور آئینی معاملہ لے کر عدالتوں سے رجوع کرتے رہیں تو پارلیمنٹ کی بالا دستی کیا ہوئی؟
الیکشن کمیشن تحریک انصاف کے منحرف ارکان کیخلاف ریفرنس خارج کرنے جا رہا ہے عمران خان نے اس فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے،الیکشن کمیشن کا فیصلہ ان حالات میں عجیب ہے ایک طرف وہ منحرف ارکان جن کو سپریم کورٹ نا اہل قرار دے چکی ہے کے حلقوں میں ضمنی الیکشن کرانے جا رہا ہے دوسری طرف ان کی اپیلوں پر سماعت ہونا ہے اگر سپریم کورٹ نے ان کی نا اہلی کا فیصلہ معطل کر دیا تو نئے منتخب ارکان کو نمائندگی ملے گی یا منحرف ارکان کی رکنیت بحال ہو جائے گی؟ الیکشن کمیشن نے جلد بازی میں شائد اس بارے سوچ بچار نہیں کی،مہنگائی کے مارے عوام کہتے ہیں کہ اگر سارے فیصلے اعلیٰ عدلیہ نے کرنا ہیں تو تمام منتخب ایوانوں کو تالے لگا دیں،کوئی ایسا نظام وضع کریں جس میں فیصلے عدالت کرے اور ان پر عملدرآمد کوئی طاقتور ادارہ کرائے،اس لئے کہ عوام مہنگائی سے نجات چاہتے ہیں جبکہ وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل رواں یاآئندہ ماہ پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمت میں ہوش ربا اضافہ کا عندیہ دے چکے ہیں،اس حوالے سے دی جانیوالی سبسڈی مکمل ختم کر کے لیوی اور فیول ایڈجسٹمنٹ کا سارا بوجھ عوام پر ڈالنے کی تیاری کی جا چکی ہے،کیا حکومت اس مسئلہ پر بھی عدالت سے رجوع کریگی کہ قیمتیں بڑھانے کی اجازت دی جائے یا عوام میں سے کوئی ریلیف کیلئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائے گا؟
عوام کے ساتھ بہت ہو چکی اب خدارا بے بس مظلوم بے آسرا عوام پر رحم کھائیں اور ان کو سلیقے قرینے سے جینے دو،رب نے ان کو آزاد پیدا کیا ہے ان کو اپنا معاشی غلام نہ بناؤ،اقتدار کے کھیل سے سیاستدانوں کو فرصت نہیں تو وہ عوام کے بارے میں سوچنے کا وقت کہاں سے لائیں؟گزشتہ چالیس سال سے پہلے نواز شریف اور بینظیر کے درمیان سیاسی مخاصمت کو عوام نے برداشت کیا،پھر عمران خان وارد ہوئے اور اب ماضی کے سیاسی دشمن عمران خان کیخلاف متحد ہو گئے ہیں،اب سارے الزامات عمران خان پر عائد کئے جا رہے ہیں۔
پنجاب کا معاملہ بہت سادہ ہے سپیکر پرویز الٰہی کی رولنگ پر عملدرآمد کرا کے اس کے بعد اطمینان سے بجٹ پیش کرتے اور چین سے حکمرانی کریں،رہی عوام تو ان کا اللہ حافظ ہے۔