جو لوگ خواجہ سلمان رفیق کو جانتے ہیں، کبھی ان سے ملاقات کی یا کوئی معاملہ کیا ہے، وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ درویش صفت، مست ملنگ آدمی ہیں ، یہی وجہ ہے کہ جب ان کے سٹاف کا ایک فوجی افسر کے ساتھ جھگڑا ہوا تو میں نے تفصیل جانے بغیر ہی کہہ دیا تھا کہ اس میں سلمان رفیق ہرگز ملوث نہیں ہوں گے، وہ ایسی طبیعت رکھتے ہیں کہ کوئی دوسرا ان کی گاڑی کو ٹکر مار دے تو نیچے اتر کے پوچھیں گے، بھائی آپ کو چوٹ تونہیں لگی۔ مجھے کئی برس پہلے سینئر ہیلتھ رپورٹر زاہد چوہدری کا ان کو دیا ہوا مشورہ یاد ہے، وہ کہہ رہے تھے کہ خواجہ صاحب، یہ بھائی ، بھائی کرنا کم کریں، آپ کے بھائی بھائی کرنے نے پروفیسروں اور بیوروکریٹوں کو سر چڑھا رکھا ہے،ا نہیں ڈیل کیسے کرنا ہے، اپنے بھائی خواجہ سعد رفیق سے ہی کچھ سیکھ لیں مگر مجال ہے کہ سلمان رفیق نے انتہا درجے پر پہنچی ہوئی نرم خوئی کی یہ بھلی عادت بدلی ہو۔
یہ تمہید ا س لئے ضروری ہے کہ میں کینسر کے مریضوں کوملنے والی مفت ادویات کا تنازع آپ تک پہنچا سکوں۔ معاملہ یہ نہیں کہ میرا خواجہ سلمان رفیق سے اچھا تعلق ہے، میرا اتنا ہی اچھا تعلق یاسمین راشد سے بھی تھا اور وہ اکثر کہتی تھیں کہ میں تمہارے پروگرام کے لئے جیل روڈ پر اپنے کلینک میں مریض ( یعنی پیسے) چھوڑ کر آ گئی ہوں مگر جب وہ وزیر بن گئیں تو انہوں نے نہ صرف فون سننا بند کرد یا بلکہ ان کے پی اے تک کا رویہ یوں اجنبی بلکہ فرعونیت بھرا ہوتا تھا جیسے موری کی اینٹ چوبارے لگ کے بو دینے لگ گئی ہو۔بہت ساروں کو علم ہی نہیں تھا کہ شہباز شریف کینسر کے مریضوں پر کتنی بڑی مہربانی کر گئے تھے جب انہوں نے بین الاقوامی کمپنی نوارٹس کے ساتھ آج سے دس برس پہلے ان کی ماہانہ چار ، پانچ لاکھ روپوں تک کی ادویات مفت کر دی تھیں۔ حیرت انگیز امر یہ رہا کہ اگرچہ عمران خان نے کرکٹ کے بعد اپنی کینسر کی مریضہ والدہ کے نام پر عوام کے پیسے سے ہسپتال بنا کے شہرت پائی مگرانہی کے دور میںچار، پانچ مرتبہ کینسر کے مریضوں کی مفت ادویات بند ہوئیں کیونکہ پنجاب حکومت کو اس میں سالانہ ایک ارب روپوں سے زائد دینا پڑتے تھے ۔ یاسمین راشد خود کینسر کی مریضہ بنیں مگر جب وہ اقتدار سے رخصت ہوئیں تو ایک مرتبہ پھر مفت ادویات کی فراہمی بند تھی۔ اس دوران کینسر کے مریضوں سے بار بار احتجاج کئے مگر مجال ہے کہ کبھی یاسمین راشد نے اس معاملے پر میسج کا جواب دیا ہو، کوئی فون اٹینڈ کیا ہو یا پروگرام میں حقائق بتانے کی زحمت کی ہو۔
جب پی ٹی آئی کی حکومت ختم ہوئی تو کینسر کے مریضوں کی تنظیم کی نمائندگی کرنے والے شاہد سلطان نے مجھ سے رابطہ کیا۔ مسلم لیگ نون کی حکومت قائم ہوچکی تھی مگر پرویز الٰہی کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے کابینہ نہیں بنی تھی۔ میرے آواز اٹھانے پر خواجہ عمران نذیر نے مجھ سے خود رابطہ کیا اور کہا کہ انہیں تفصیلات دوں، وہ وزیراعلیٰ اور وزیراعظم کو بھجواتے ہیں اور اس معاملے پر وزیراعظم شہباز شریف کی یقین دہانی بھی آ گئی۔ خواجہ سلمان رفیق سے میں نے درخواست کی تو انہوں نے ، اس کے باوجود کہ شاہد سلطان ٹاؤن شپ لاہور سے پی ٹی آئی کے مقامی عہدیدار ہیں، ان سے میری درخواست پر ملاقات کی، انہیں اپنا پرسنل فون نمبر دیا اور وعدہ کیا کہ کابینہ بننے کے بعد وہ یہ معاملہ حل کروائیں گے کیونکہ یہ فنانشنل ایشو ہے اور اسے کابینہ کی منظوری کی ضرورت ہے۔ اس دوران میں نے دو مرتبہ ان کے پروگرام کر کے ان کی آواز بلند کی کہ کہیں یہ نہ سمجھا جائے کہ صرف پی ٹی آئی دور میں کوریج ملتی تھی ، اب نہیں ملتی۔جب بجٹ کی منظوری کے لئے کابینہ کا اجلا س ہو رہا تھا تو شاہد سلطان رابطے میں تھے اور میں نے خواجہ سلمان رفیق کی جان کھائی ہوئی تھی کہ وہ اسے کابینہ کے سامنے رکھیں، اس کے باوجود کہ بجٹ والے اجلاس میں بجٹ کے سوا کچھ ڈسکس نہیں ہوتا، خواجہ سلمان رفیق نے میری بار بار کی فون کالز پر وزیراعلیٰ حمزہ شہباز شریف اور چیف سیکرٹری سے رابطہ کیا اور اسے کابینہ کے ایجنڈے پر رکھوایا اور منظور کروا لیا،انہوں نے محض چار ہفتوں میں وہ کام کر دکھایا جویاسمین راشد چار برسوں میں نہیں کر سکیں ۔
مجھے لاہور کے ہیلتھ رپورٹرز کی ایسوسی ایشن کے صدر سینئر صحافی میاں نوید نے اس اجلاس کی خبر بھیجی ہے جس میں خواجہ سلمان رفیق نے ان ادویات کی مستقل اور مسلسل مفت فراہمی کے لئے لائحہ عمل بنانے کا کہا ہے یعنی وہ اس پر فالو اپ بھی کر رہے ہیں اور نظر بھی رکھ رہے ہیں، میں نے میاں نوید سے جتنی مرتبہ فیڈ بیک لیا وہ اس ضمن میں حکومتی اقدامات پر بطور صحافی مطمئن نظر آئے۔ اس پورے عمل پر کینسر کے مریض شکریہ تو ادا کر رہے ہیں مگر ان کے تحفظات اب بین الاقوامی برینڈ گیلوویک کی جگہ ملکی فارما کی دوا فراہم کرنے بارے ہیں۔ مقامی دوا نو ہزار روپے کے لگ بھگ آتی ہے جبکہ امپورٹڈ دوااسی ہزار کے لگ بھگ۔ مریضوں کا کہنا ہے کہ ان پر تجربات کئے جار ہے ہیں ، مریضوں کے بدن مقامی دوا قبول ہی نہیں کریں گے، یہ ری ایکٹ بھی کر سکتی ہے، سو اسی خطرے کے پیش نظر اسی فیصد مریض مقامی دوا لینا ہی نہیں چاہتے، وہ امپورٹڈ برینڈکی میڈیسن ہی چاہتے ہیں۔ وہ اس پر کچھ ڈاکٹرز کی رائے کو بھی اپنے حق میں پیش کرتے ہیں۔ میں نے پتا کیا ہے، حکومت کہتی ہے کہ اس دوا کے لئے جنیوا تک رابطہ کیا گیا ہے مگر متعلقہ کمپنی اب گیلویک نہیں دے رہی۔ محکمہ صحت بااختیار نہیں کہ مقامی طور پر اسی سالٹ کی سستی دوا دستیاب ہو تو وہ اس کا مہنگے متبادل امپورٹ کرے، مقامی دوا کو ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی پاکستان (یعنی ڈریپ) نے منظور اور تجویزکیا ہے سو اگر کینسر کے مریضوں کو ایشو ہے تو وہ ڈریپ کے سامنے مظاہرہ کریں یا اس کمپنی کے سامنے جو اب انکاری ہے، حکومت یہاں بے بس ہے ۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان کی فارماسیوٹیکل انڈسٹری نے عالمی معیار کو حاصل کیا ہے اور اس کی ادویات اب ایکسپورٹ ہوتی ہیں لہٰذا حکومت اپنی انڈسٹری پر عدم اعتماد نہیں کرسکتی۔میں چاہتا ہوں کہ کینسر کے مریضوں کی مفت ادویات کا کریڈٹ بھی اسی حکومتی ٹیم کو جاتا ہے اور اس کی بحالی کا بھی لہٰذا آپس میں اعتماد کا رشتہ بحال رہنا چاہئے بالکل اسی طرح جیسے شہباز شریف کی حکومت نے پی ایم سی، این ایل ای، ایم ٹی آئی اور ایم ڈی کیٹ جیسے میڈیکل کمیونٹی کے دشمن قوانین واپس لے کر ڈاکٹروں کے دل جیت لئے ہیں یہاں میری درخواست ہے کہ جہاں خواجہ سلمان رفیق نے بہت درد دل کے ساتھ یہ سب معاملہ حل کیا ہے تو وہ ان کا ڈرگ کنٹرولر اور دیگر ماہرین کے ساتھ مکالمہ کروا دیں ، مریض اپنے تحفظات بیان کر یں اور حکومتی ماہرین اپنے دلائل دے دیں، جو درست اور منطقی ہو اس کی بات مان لی جائے ۔پاکستان کی حکومت اور پاکستان کے عوام کو ایک دوسرے سے بات چیت کرتے رہنا چاہئے کہ مسائل کا صرف یہی حل ہے۔