10 اپریل 2022 کو عمران خان کی 44 ماہی حکومت کو ایک عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کے ذریعے رخصت کر دیا گیا۔ درجن بھر سیاسی جماعتوں نے مل جل کر انہیں پارلیمان میں شکست دے کر چلتا کیا اس وقت وہ اپنی پاپولیریٹی اور کارکردگی کے اعتبار سے پست درجے پر تھے ان کی بطور وزیراعظم پاکستان کارکردگی کسی بھی زاویے سے قابل ستائش نہیں تھی وہ تقاریر کرنے اور مخالفین کو لتاڑنے اور رگیدنے میں یدطولیٰ رکھتے تھے شریف فیملی، آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن کو بالخصوص ذلیل کرنے، لتاڑنے بدنام کرنے میں اس قدر مصروف رہے کہ انہوں نے صرف اسی کام کو کارکردگی سمجھنا شروع کر دیا۔ وہ بلند آہنگ میں یہی کام کرتے رہے کارکردگی کے میدان میں وہ بری طرح ناکام رہے حکومتی معاملات پر ان کی گرفت نہیں تھی وزراء میں، پارٹی عہدیداروں میں اختلافات ابھرنا شروع ہو گئے تھے بیوروکریسی پر ان کی گرفت بالکل نہیں تھی ان کے اختلافات مقتدر حلقوں کے ساتھ بھی شروع ہو چکے تھے، جنرل فیض حمید کی ٹرانسفر کے حوالے سے اختلافات ہماری تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔
بہرحال عمران خان کو اقتدار سے الگ کر دیا گیا۔ کہا گیا کہ اقتدار سے علیحدگی ان کے لئے فائدہ مند ثابت ہو چکی ہے، عمران خان کو اگر اگست 2023تک اقتدار میں رہنے دیا جاتا تو وہ اپنی عوامی پذیرائی مکمل طور پر گنوا چکے ہوتے لیکن اپوزیشن نے ان کی ساڑھے تین سالہ ’’ناکارکردگی‘‘ کو اپنے کھاتے میں ڈال کر یقینا گھاٹے کا سودا کیا ہے عمران خان کہا کرتے تھے کہ میں اقتدار سے باہر ہو کر خطرناک ہو جائوں گا۔ گزرے دو مہینوں کے دوران ایک بات تو سچ ثابت ہو چکی ہے کہ عوام عمران خان کی نااہلیاں، ناکارکردگیاں اور دیگر منفی افعال و کردار کو بھول چکے ہیں اور سردست شہباز شریف کی اتحادی حکومت کی ’’ظالمانہ پالیسیوں‘‘ کا سامنا کر رہے ہیں۔ مہنگائی کا فلڈ گیٹ کھل چکا ہے اور عوام اس میں بہہ رہے ہیں۔
ابتدا میں شہباز شریف کی بطور چیف منسٹر پنجاب کارکردگی کا حوالہ خاصا طاقتور تھا لوگ، عام لوگ کہتے سنے گئے کہ شہباز شریف ملک کو مشکلات سے نکال لیں گے، عمران خان نے ملک و قوم کو ساڑھے تین سالہ دور حکمرانی میں جن مشکلات کا شکار بنا دیا ہے شہباز شریف اپنے تجربے اور شاندار ٹیم کے چنائو میں مہارت رکھنے کی شاندار تاریخ رکھنے کے باعث معاملات کو ٹریک پر لے آئیں گے۔ لیکن عوام جلد ہی مایوسی کا شکار نظر آنے لگے ہیں۔ اتحادی حکومت ابھی تک عوام میں اپنا امیج قائم نہیں کر سکی ہے۔
اس وقت دو محاذ بڑے اہم ہیں ایک پالیسی سازی اور آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات کا محاذ ہے اور دوسرا انتظامی محاذ ہے۔ جہاں تک آئی ایم ایف سے معاملات کا تعلق ہے اس میں کارکردگی دکھانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے کیونکہ ہماری معیشت اس وقت جان بلب ہے اسے ڈالروں کی ضرورت ہے اشد ضرورت ہے عالمی قرضوں پر سود کی ادائیگی کے لئے، درآمدات کا بل ادا کرنے کے لئے، درآمدات میں دفاعی سازوسامان بھی شامل ہے، کھانے پینے کی ضروری اشیاء بھی شامل ہیں۔ کھانے کا تیل، دالیں، ادویات بنانے کا خام مال، پٹرولیم مصنوعات، صنعتی آلات و اوزار وغیرہ شامل ہیں۔ ہم سردست اپنے درآمدی اخراجات کو قابل قبول حد تک لانے کے لئے قطعاً تیار نہیں ہیں۔ ہم ڈالر کے پیچھے بری طرح بھاگ رہے ہیں اسے دامے۔ درمے۔ سخنے حاصل کرنے کی اندھا دھند کاوشوں میں مصروف ہیں اس کے لئے کچھ بھی کرنے کے لئے تیار ہیں یہی وجہ ہے کہ ہماری ایسی سوچ کے باعث، آئی ایم ایف کی شرائط ہمارے لئے سوہان روح بن چکی ہیں۔ ڈالر کی قیمت 200 کی نفسیاتی حد بھی کراس کر چکی ہے۔ پاکستانی سٹاک مارکیٹ سے بھی اچھی خبریں نہیں آ رہی ہیں، سونے کی قیمت ناقابل بیان حد تک بڑھ چکی ہے اور بڑھوتی کا رجحان جاری ہے۔ اشیاء خورونوش کی قیمتوں میں اضافے کے علاوہ بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں دن بدن ہوشربا ہی نہیں بلکہ ہوش شکن اضافہ کیا جا رہا ہے۔ عوام کی حالت کا اندازہ لگانا ہو تو پٹرول کی قیمت میں اضافے کی فیک نیوز کے بعد، پٹرول پمپوں پر پٹرول ڈلوانے/ ٹینکی فل کرانے والوں کی میلوں لمبی قطاریں دیکھ لیں۔ یہ عمل لوگوں کی پست ذہنی حالت کی عکاسی ہے کہ وہ احتجاج کرنے کی بجائے ٹینکیاں فل کرانے کے لئے دوڑ پڑتے ہیں۔
خیر ایسے امور ہیں جن کا سطور بالا میں ذکر کیا گیا ہے، پر حکومت کا بھی کنٹرول نہیں ہے کہا جا رہا ہے کہ معیشت کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لئے ضروری ہے کہ آئی ایم ایف سے معاملات طے کئے جائیں۔ اس حکمت عملی کا قدرتی و فطری تقاضا ہے کہ اس کی شرائط مانی جائیں ان شرائط پر عمل درآمد کے نتیجے میں وہ کچھ ہو رہا ہے جس کا سطور بالا میں نقشہ کھینچا گیا ہے عوام لاچار اور حکومت بے بس۔
جہاں تک انتظامی محاذ کا تعلق ہے اس کی صورتحال بھی درست نظر نہیں آ رہی ہے آڑھتی یا نانبائیوں کی ایسوسی ایشن، تیل سپلائی کرنے والے کنٹینرز کی ایسوسی ایشن، APTMA، APSMA اور ایسی ہی دیگر تنظیمیں، وہ جب چاہتی ہیں جیسے چاہتی ہیں ہڑتال کر دیتی ہیں۔ اپنی اشیا و خدمات کی قیمت اور معاوضہ بڑھانے کے لئے، اپنے مطالبات منوانے کے لئے جب چاہتی ہیں رسد منقطع کر کے مارکیٹ میں بحرانی کیفیت پیدا کر دیتی ہیں۔ ایسی تنظیموں اور ایسوسی ایشنوں پر حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ بجلی سپلائی کرنے والی ڈسکوز کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے کیونکہ وہ جب چاہیں اعلان یا بغیر اعلان بجلی کی لوڈشیڈنگ شروع کر دیں۔ وہ وولٹیج بھی کم زیادہ کرتی رہتی ہیں۔ اس سے عوام کے قیمتی سازوسامان کی ہونے والی تباہی کا ذمہ دار بھی کوئی نہیں بنتا ہے۔ ایسے معاملات کو سدھارنے میں حکومت کسی ملکی یا غیرملکی ایجنسی کے
زیراثر نہیں ہے، کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ اس کے باوجود اگر معاملات پر سرکار کی گرفت نہیں ہے تو یہ اس کی نالائقی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔
عوام بجلی، گیس، تیل وغیرہ کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے پریشان تو پہلے ہی ہیں مہنگائی سوہان روح بھی بن چکی ہے ان معاملات کا تعلق آئی ایم ایف معاہدے سے ہے اس لئے حکومت کی بے بسی سمجھ میں آتی ہے لیکن ان اشیا کی فراہمی/ رسد اور بروقت فراہمی تو حکومت کی اپنی ذمہ داری ہے، لوڈشیڈنگ، وولٹیج میں کمی و اضافہ، اشیا کی طے شدہ قیمت پر فراہمی کو یقینی بنانا، مارکیٹوں کی تنظیم وغیرہ وغیرہ ایسے امور ہیں جن کا تعلق آئی ایم ایف کی شرائط یا کسی اور عالمی ادارے کے ساتھ حکومتی معاملات سے جڑا ہوا نہیں ہے نہ امور حکومتی انتظامی صلاحیتوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ اشیا کی قیمتوں میں اضافہ کتنا ہونا چاہئے اور کب ہونا چاہئے، ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں کتنا اضافہ ہو گا، لوڈشیڈنگ کب اور کتنی ہو گی، ایسے تمام امور کا تعلق حکومتی انتظامی صلاحیتوں سے ہے، لیکن اس شعبے میں بھی حکومتی عوامی حقوق کا تحفظ کرنے میں ناکام نظر آ رہی ہے، شہباز شریف کی ماضی میں ’’صلاحیتوں‘‘ اور ’’کارکردگی‘‘ کے معترف عوام میں مایوسی پھیل رہی ہے، شہباز شریف کی انتظامی صلاحیتوں کا جادو کس کے سر چڑھ کر بولتا ہوا نظر نہیں آ رہا ہے۔ایک تاثر یہ بھی سر اٹھا رہا ہے کہ ن لیگ نے اپنے مفادات کے حصول کے لئے ایسے وقت میں حکومت میں آنا قبول کیا جب عمران خان اپنی نالائقیوں کے بلند ترین مقام پر فائز ہو چکے تھے بہرحال اتحادی حکومت ابھی تک کامیاب ہوتی نظر نہیں آ رہی ہے فائر فائٹنگ اور عوام پر مہنگائی کا بوجھ ڈالتی چلی جا رہی ہے کارکردگی کہیں بھی نظر نہیں آ رہی ہے۔ ہاں شہباز شریف حکومت نے بجٹ 2022-23 پیش کر دیا ہے یہ ایک متوازن بجٹ ہے اور ایسے نازک و بگڑے ہوئے حالات میں اس سے بہتر بجٹ پیش کرنا ممکن نہیں تھا۔