خدارا مہنگائی اور لوڈ شیڈنگ کا کچھ کریں ورنہ جو کہانی شروع ہو چکی ہے اسے بیک فائر ہوتے دیر نہیں لگے گی ۔جہاں تک عمران خان کی بات ہے تو اپنی تمام تر کوشش اور لا محدود خواہشات کے باوجود انھیں زمینی حقائق کے سامنے سر جھکانا پڑا اور عدم اعتماد کی تحریک کے بعد سرپرائز دینے کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ اب تھم چکا بلکہ اپنی موت آپ مر چکا ہے اس کے لئے حکومت کو کوئی خاص تگ و دو بھی نہیں کرنا پڑی بلکہ لانگ مارچ کے دوران انھوں نے وہی کچھ کیا کہ جو کچھ پاکستان میں ہوتا چلا آ رہا تھا لیکن ہوا کیا کہ خود تحریک انصاف اپنے کارکنوں کو سڑکوں پر نہیںلا سکی اور بات صرف لانگ مارچ تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کے بعد خان صاحب نے دو تین بار احتجاج کی کال دی اور اس احتیاط کے ساتھ دی کہ کارکنوں کو گرمی اور دھوپ کی شدت سے بھی بچا لیا اور رات نو بجے کی کال دی لیکن نتیجہ اس قدر حوصلہ شکن تھا کہ اس کے بعد تحریک انصاف کی جانب سے احتجاج کی کال نہیں دی گئی ۔خان صاحب تو خیر خبط عظمت کا شکار ہیں لیکن عوام جب ان کے منفی رویوں کو دیکھتے ہیں تو انھیں مایوسی ہوتی ہے ۔عدم اعتماد کی تحریک کے دوران سپیکر اور ڈپٹی سپیکر سے لے کر گورنر پنجاب اور پھر آئین اور قانون کی آڑ میں صدر مملکت کا کردار اور اب پنجاب میں بجٹ اجلاس کے ساتھ جو کچھ کیا جا رہا ہے اس پر تحریک انصاف کے ہمدردوں کی ایک محدود اقلیت تو واہ واہ کر سکتی ہے لیکن اہل شعور اکثریت ایسے فاشسٹ ہتھکنڈوں کو کبھی پسند نہیں کرتی یہی وجہ ہے کہ سازشی تھیوری کے بعد خان صاحب کی مقبولیت کو جو چار چاند لگے تھے ان کی اپنی حرکتوں کی وجہ سے وہ چاند اب گرہن کی نذر ہو چکے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم میں امریکن شہریوں کی ایک نفسیات تھی کہ وہ دنیا سے دور ایک محفوظ مقام پر ہیں انھیں کسی سے کوئی خطرہ نہیں ۔اس وقت تک لانگ رینج میزائل تو ابھی بنے نہیں تھے کہ ہزاروں کلو میٹر دور سے امریکن شہروں کو نشانہ بنایا جاتا اس لئے ان کی سوچ بڑی حد تک درست تھی لیکن پرل ہاربر نے ان کے ہوش ٹھکانے بھی لگا دیئے اور اڑا بھی دیئے اور انھوں نے جاپان پر ایٹم بم گرا کر لاکھوں
انسانوں کو موت کی نیند سلا دیا ۔ اسی طرح 2011کے بعد جب جنرل پاشا نے کھل کر تحریک انصاف کو گود لینے کا فیصلہ کیا تو بعد کے زمینی حقائق کے تسلسل نے تحریک انصاف کے کارکنوں کے اندر ایک مخصوص نفسیات کو جنم دیا کہ ان کا قائد جو کہتا ہے کر دیتا ہے اور جو چاہتا ہے ہو جاتا ہے حالانکہ خان صاحب جو کہتے تھے وہ کرتا کوئی اور تھا اور جو چاہتے تھے اسے عملی جامہ کہیں اور سے پہنایا جاتا تھا اس میں خان صاحب کی بس اتنی اہلیت تھی کہ وہ اس تمام عرصہ میں لاڈلے کے منصب پر فائز رہے اور ان کی ہر جائز و ناجائز خواہش کو پورا کرنے کا ٹھیکہ کسی اور کے پاس تھا ۔یہی وجہ ہے کہ جب تحریک عدم اعتماد پر ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے جو رولنگ دی تو تحریک انصاف کے کارکنوں کا عمران خان کی ذات پر یقین مزید پختہ ہو گیا لیکن انھیں اندازہ نہیں تھا کہ اب ہواؤں کا رخ بدل چکا ہے اور اب خان صاحب کو اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے خود کوشش کرنا ہو گی کہ جو انھوں نے زندگی میں کبھی نہیں کی لیکن پھر بھی انھوں نے پرانے تعلقات کی آس پر لانگ مارچ سیزن 2کے لئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا لیکن بات بن نہ سکی اور سافٹ ویئر اپ ڈیٹ ہونے کے بعد اب وہ اچھے بچوں کی طرح شانت ہو چکے ہیں ۔
تمہیدی گفتگو کی ضرورت اس لئے پڑ گئی کہ پڑھنے والوں کو اس بات کی سمجھ آ جائے کہ اب حکومت کو عمران خان سے ایسا کوئی سنجیدہ خطرہ نہیں لیکن اس کا قطعی یہ مطلب نہیں کہ حکومت اگر خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنا شروع کر دے تو اس کے بعد بھی وہ بچ جائے گی ۔عوام بھی اس بات کو سمجھتے ہیں کہ بری سے بری حکومت بھی ہوتی تو اس کے پاس یہ صلاحیت نہیں تھی کہ وہ اتنے کم عرصہ میں معاشی حالات کو اس حد تک بگاڑ دیتی کہ نوبت تیس تیس روپے فی لیٹر پیٹرول پڑھانے اور بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ تک آتی ۔عوام اگر حکومت کے خلاف سڑکوں پر نہیں نکل رہے تو اس میں دیگر وجوہات کے علاوہ یہ بات بھی اہم ہے کہ عوام کو احساس ہے کہ اتنے کم عرصہ میں اگر حکومت کو یہ سب کرنا پڑ رہا ہے تو اس میں قصور ان کا نہیں بلکہ جانے والوں کا ہے کہ جن کی وجہ حالات اس نہج تک پہنچے لیکن ہر بات کی ایک حد بھی ہوتی ہے اور پھر ایک ریڈ لائن بھی ہوتی ہے ۔ایک مرتبہ تیس روپے ہی بہت تھا لیکن پھر دوسری مرتبہ تیس روپے بڑھا دیا اس پر مزید ستم کہ بجلی کی قیمتوں میں پریشان کن اضافہ کہ جس کا صحیح اندازہ اس مہینے کے بلوں کے بعد ہو گا ۔ یہاں تک ہو نے کے بعد اب تھوڑا صبر کرنا چاہئے تھا لیکن شنید ہے کہ جب یہ تحریر آپ تک پہنچے گی تو پیٹرول کے نرخ مزید بڑھ چکے ہوں گے ۔ہمیں اس بات کو تسلیم کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ آپ نے انتہائی مجبوری کے عالم میں یہ سب کیا ہے لیکن اب چونکہ کر لیا ہے تو گزارش صرف اتنی کرنی تھی عوام کو اگر آپ ریلیف نہیں دے سکتے تو ان پر اتنا بوجھ بھی نہ ڈالیں کہ عوام تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مصداق گھروں سے نکلنے پر مجبور ہو جائیں ۔
اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ عوام ہمیشہ خاموش رہیں گے تو یہ اس کی بھول ہے ۔ یہ بات تو اکثر لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان میں خدا معاف فرمائے جب بھی آیا خونی انقلاب ہی آئے گا اور ہر چیز تہس نہس کر دے گا لیکن خدا نہ کرے کہ یہ سب ہو تو پھر بھی ہر حکومت کا فرض بنتا ہے کہ وہ عوام کو ان کے بنیادی حقوق دے ۔ قیمتیں بڑھنے اور مہنگائی کی شرح میں اضافہ کا سلسلہ اگر ایسے ہی جاری رہا اور فرض کریں کہ عوام بھی گھروں سے نہیں نکلتے تو اس کے باوجود بھی یہ سمجھنا خام خیالی ہو گی کہ کہ معاشرے میں سب اچھا ہے اس لے کہ غریب اور متوسط طبقہ نے اپنی زندگی بھی گذارنی ہے اور زندگی سے جڑی تمام ضروریات کو بھی پورا کرنا ہے اور نبی پاک ﷺ کی ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ غربت انسان کو کفر تک لے جا تی ہے لیکن کفر تک پہنچنے سے پہلے کے جو مراحل ہیں وہ بھی کم تکلیف دہ نہیں ہیں بلکہ معاشرے کی بنیادوں تک کو ہلا دیتے ہیں اور اس میں سب سے پہلا مرحلہ معاشرے میں بے حیائی کا عام ہونا ہے اور یہ کسی بھی اسلامی معاشرے کے لئے زہر قاتل ہے لہٰذا کچھ بھی کریں لیکن معیشت کو سنبھالیں اور غریب پر مزید بوجھ ڈالے بغیر کریں ورنہ عام انتخابات سے پہلے ضمنی انتخابات میں ڈھول بجتے دیر نہیں لگے گی ۔