اعداد کے جادوگروں کا مقابلہ’’ شکست ِعوام‘‘ زورں پر ہے بجٹ کے اعداد و شمار پر جاری ’’چھومنتر ‘‘کسی بھی گروہ کی فتح کی صورت میں صرف عوامی خواہشات کو ’’چھومنتر‘‘ کر کے اپنے اپنے تماشائیوں سے داد وصول کریں گے اور اُس کے بعد پھر سب ہنسی خوشی رہنا شروع کردیں گے ۔وزیر اعظم شہباز شریف اور اُس کے اتحادیوں نے عدم اعتماد لا کر عمران خان کی ’’ غیرت ‘‘ کو للکار کر بہت بڑی غلطی کی ہے ۔عمران کے ساتھ بھی پرانے شعبدہ باز اور اُن کے بچے ہیں جنہوں نے’’ غیرت مند‘‘ پٹھان کو یہ یقین دلادیا ہے کہ وہ سچ مچ کا ’’ صادق و امین ‘‘ ہے سو امریکہ ٗ برطانیہ اور یورپی یونین کے علاوہ کسی کی جرأت ہی نہیں کہ وہ آپ کو ہٹا سکے ۔ پاکستان کے کرپٹ اور آپس میں جانی دشمن سیاستدان صرف آپ کی حکومت گرانے کیلئے اکھٹے ہوئے ہیں ۔ان جماعتوںکا مشترکہ مفاد صرف آپ کی حکومت گرانا ہے جس کا سوفیصد یقین عمران خان کرچکا ۔ عمران خان کا خیال تھا کہ وہ اقتدارسے باہر آ کر زیادہ خطرناک ہوجائے گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ’’ آزادی مارچ ‘‘نے عمران کی سیاسی تنظیم کو برہنہ اور عمران خان کی اپنی ’’دلیری‘‘کا پول کھول کر رکھ دیا ہے۔آئی ایم ایف کے قرضوں کی دلدل میں پھنسا مقروض ملک اپنے شہریوں کو طے شدہ معاہدے کی خلاف ورزی کرکے سبسڈی کیسے دے سکتا ہے؟ بالخصوص جب حکومت کا سربراہ جان چکا ہو کہ اُس کے خلاف تحریک عدم اعتماد آ رہی ہے(بقول عمران خان) ۔یہ بات میں کسی ماہر معاشیات سے سمجھنے کی کوشش ضرور کروں گا ۔فروری سے اپریل تک کروڑو ں پاکستانیوں کو ٗ آئی ایم ایف سے کیا گیا لیوی ٹیکس کا وعدہ پورا کرنے کے بجائے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید کمی کرکے عوام کو فراہم کرنا میری عقل سے باہر ہے ۔ عدمِ اعتماد کے بعد اتحادیوں کے پاس سوائے حکومت بنانے کے اور کوئی چارہ تھا نہیں سو انہوں نے حالات کوجیسے تیسے قبول کرلیا ۔
عمران خان بارے مجھے پورا یقین تھا کہ وہ ورلڈ کپ کے بعد کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لے لے گا کہ اُس کا ماضی ایسا ہی ہے کہ وہ کسی بھی کام کی آخری حد تک جاتا ہے اور دوبارہ اُس سے نیچے کام کرنا اُس کی فطرت میںہی نہیں سو پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور پاکستان کی عوام کو یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ عمران خان یا تو وزیراعظم ہے یا پھراسمبلی سے باہر وہ کسی صورت اپوزیشن کے بینچ پر اب کبھی نہیں بیٹھے گا ۔ اگلے انتخابات جب بھی ہوں وہ نتائج کو کبھی تسلیم نہیں کرئے گا کیونکہ اُس کے بچھائے ہوئے الیکشن جال
کو سمیٹ دیا گیا ہے ۔بلاشبہ اُس نے کرکٹ میں نیوٹرل ایمپائر متعارف کروائے لیکن پاکستان کی سیاست میں نیوٹرل اُس سے پہلے موجود تھے سو اُسے یہاں نان نیوٹرلزکی ضرورت تھی جو صرف اُس کیلئے انگلی کھڑی کریں یا پھر نوبال یا وائیڈ بال دیں لیکن یہ نیوٹرلز اپنی مرضی کے مالک ہیں کیونکہ یہ صرف ایمپائر نہیں بلکہ کھلاڑیوں کی ناقص کارکردگی پرخود بھی پیڈ کرکے میدان میں آ جاتے ہیں اور پھراتنی اتنی لمبی اننگز کھیل جاتے ہیں جو کسی سیاسی کھلاڑی کو آج تک نصیب نہیں ہوئی اور اِن کی قسمت دیکھیں کہ انہیں اپنے تماشائی بھی میسر آ جاتے ہیں جو اُن کے’’ کارنامے‘‘ اگلی نسلوں کو سناتے رہتے ہیں ۔
انقلاب ٗ تبدیلی ٗپرانے نظام کا خاتمہ ٗ نئے نظام کیلئے جدوجہد یہ بہت عظیم اور مقدس کاز ہیں ۔ یہ سب کچھ عوامی تربیت اورغصے سے ممکن ہے لیکن اگرآپ اصلاحات کے زریعے کوئی تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو پھر آپ کوجمہوری میدان میں اترنا پڑتاہے پھرآپ انقلابی نہیں جمہوری لیڈرہوتے ہیں ۔آپ کے رستے آئین ٗ قانون ٗ مذہب ٗ مسالک ٗ برادری ازم ٗ صوبہ پرستی اورآئینی ادارے بہت بڑی رکاوٹ ہوتے ہیں ۔ انقلاب دراصل عوام کے ہاتھوں ریاستی اداروں کی شکست کا نام ہے لیکن اداروں سے اقتدار لے کر اُن کے خلاف آپ چلیں گے تو پھر آپ میری طرح فٹ پاتھ پر آ جائیں گے ۔جو لوگ ستمبر 2011 ء میں آپ کیلئے مینار پاکستان جمع ہوئے تھے دراصل یہ وہی لوگ تھے جو کسی بھی انقلاب کا پیش خیمہ بنتے ہیں لیکن جب آپ نے دسمبر 2011 ء میں اسلام آباد کے میریٹ ہوٹل میںشاہ محمود قریشی کوساتھ بیٹھا کر اپنے ورکروں کو کھلا پیغام دے دیا کہ جس نے پارٹی میں رہنا ہے رہے اور جس نے جانا ہے چلا جائے وہ دن آپ کی بربادی کے آغاز کا دن تھا ۔آپ نے پاکستان بھر سے چن چن کر گند بلا کواکھٹا کیا اوراپنے ساتھ بیٹھا لیا ۔پاکستانیوں نے جب ’’ نئے لیڈر کے ساتھ پرانا گند‘‘ دیکھا تو وہ لوگ واپس چلے گئے ۔البتہ نوجوانوں کی ایک بڑی کھیپ اس میدان کارزار میں کام آنے کیلئے عمران کو میسر آگئی ۔جس کا استعمال وہ ابھی تک کر رہا ہے
موجودہ بجٹ بھی 75 سالوں میں پیش ہونے والے بجٹس سے مختلف نہیں ۔آئینی کرائسز میں پرانے بجٹس میں کچھ تبدیلیاں کرکے نیا بجٹ پیش کردیا گیا ہے۔ البتہ نون لیگ کے ساتھ چھوٹے تاجروں اورمڈل کلاسیوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے اوراگریہ اعداد شمار درست ہیں اوراہداف کا تعین عین بجٹ کے مطابق ہو جاتاہے تو پھر اسے برا بجٹ بھی نہیں کر جاسکتا لیکن اعداد کے جادوگروں کے پاس اپنے اپنے شماریاتی گرافکس ہیں اور دکھا اُس عوام کو رہے ہیں جنہیں بولا ہوا لفظ سمجھ نہیں آتا البتہ جب اُن کی جیب پر ڈاکا پڑتاہے تو پھر اُن کے نزدیک وہ حکومت بری ہوجاتی ہے ۔ یہی معیار ہے ہماری عوام کا ۔لیکن چونکہ عمران خان آلو اورٹماٹر کیلئے نہیں بلکہ اس قوم کو عظیم بنانے آیا تھا وہ بھی شاہ محمود قریشی ٗ جہانگیر ترین ٗ اسد عمر ٗ فواد چوہدری ٗ بابر اعوان ٗ چوہدری سرور ٗعمران اسماعیل اور واڈ ا جیسے لوگوں کے ساتھ سو عوام نے اسے مسترد کرتے ہوئے عظیم بننے سے انکار کردیا ۔ اورعمران کا وسیم اکرم پلس ’’جناب بزدار اعظم ‘‘آجتک لا پتہ ہے ۔ کیسی عجیب بات ہے کہ آپ نے 13 کروڑ پنجابیوں کو ایک ایسے شخص کے رحم و کرم پرچھوڑ دیا تھا جس سے آپ خود اپنے ایک بھی جلسے میں تقریر نہیں کروائی ۔
اس بجٹ کے اثرات ابھی آنا شروع ہوں گے موجودہ حکومت دیکھ لے گی لیکن تحریک انصاف نے پنجاب اسمبلی میں میاں محمود الرشید کو اپوزیشن لیڈراور میاں اسلم اقبال کو ڈپٹی اپوزیشن لیڈر بنا دیا ہے جس سے پیشگی اطلاع دے رہا ہوں کہ قومی اسمبلی کی طرح پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں بھی اپوزیشن ختم ہو گئی اور باقی رہ گئی نورا کشتی جو ہوتی رہے گی ۔ حالانکہ تحریک انصاف کے ورکروں کی خواہش تھی کہ آزادی مارچ کے حوالے سے ان لوگوں کے غیر سیاسی اور بزدلانہ کردار کی وجہ سے انہیں شوکازہونا چاہیے لیکن شیر جنگل کا بادشاہ ہے انڈہ دے یا بچہ اُسے کون روک سکتا ہے ۔میاں محمود الرشید اور عمران خان کی تربیت تو نیوٹرلز 2013ء کے بعد پاکستان سول اکیڈمی میں کروانا شروع ہو گئے تھے تاکہ انہیں پاکستان چلانے کی بیوروکریٹک طریقے بتا دیئے جائیں اور پھر اقتدار ملنے کے بعد عمران خان نے پاکستان بیوروکریسی کے حوالے ہی کردیا ۔ عمران خان کا عہد حکومت بیوروکریسی کی عیاشی اورخودمختاری کے حوالے سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا جس کا ذکر کیش اینڈ کیری گورنرپنجاب چوہدری سرورتحریک انصاف سے علیحدگی کے وقت اپنی آخری پریس کانفرنس میں بھی کرگیا کہ گورنر ہونے کے باوجود وہ ایک معمولی پولیس آفیسر سے کوئی جائز کام کروانے کی استطاعت بھی نہیں رکھتا تھا ۔لیکن فی الحال اعداد کے جادوگروں کا مقابلہ’’ شکست ِعوام‘‘ زورں پر ہے بجٹ کے اعداد و شمار پر جاری ’’چھومنتر ‘‘کسی بھی گروہ کی فتح کی صورت میں صرف عوامی خواہشات کو ’’چھومنتر‘‘ کرکے اپنے اپنے تماشائیوں سے داد وصول کریں گے ۔آپ بھی تماشا دیکھیں۔