بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ اور افغان خفیہ ادارے ’این ڈی ایس‘ افغانستان میں دیرپا امن کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہیں۔ یہ دہشت گرد ادارے کالعدم تحریک طالبان کے ساتھ مل کر پاکستانی سکیورٹی فورسز پر حملوں کی تیاری کا انکشاف ہوا ہے۔ دونوں ادارے کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور دیگر شدت پسند تنظیموں کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف سازشیں کررہے ہیں۔
بھارت افغانستان سے اربوں روپے پاکستان میں امن و امان کو تباہ کرنے لیے خرچ کر رہا ہے۔ قندھار میں افغان این ڈی ایس کے ایک کرنل کے کمپاؤنڈ میں تین ارب روپے پائے گئے ہیں۔ جس جگہ سے یہ رقم برآمد ہوئی ہے وہاں ساتھ بھارتی قونصل خانہ تھا۔ یہ رقم تحریکِ طالبان پاکستان اور بھارتی خفیہ ایجنسی "را" سے منسلک دیگر دہشتگرد تنظیموں میں تقسیم ہونا تھی۔ بھارت مسلسل ایسی کارروائیوں میں مصروف ہے۔
حال ہی میں سفارتی عملے کے انخلا کے نام پر2 بھارتی سی17 طیارے افغانستان آئے۔ یہ طیارے بظاہر تو عملے کو لینے آئے لیکن درحقیقت یہ اسلحے سے بھرے ہوئے تھے اور مذکورہ بھارتی طیارے افغانستان میں اسلحے کی بڑی کھیپ اتار کر بھارتی شہریوں کو واپس لے گئے۔ دوسری طرف طالبان کی پیش قدمی کے باعث قندھار میں بھارتی قونصل خانہ بند کردیا گیااور سفارتی عملے کو واپس بلالیا گیا اور بھارتی ایئر فورس کے خصوصی طیارے کے ذریعے قونصل خانے کے تقریباً 50 ارکان کو نئی دہلی پہنچا دیا اسی اثنا میں بھارت کے قندھار میں قونصل خانہ پر طالبان کے قبضہ کر لیاطالبان نے قبضے کی ویڈیو جاری کر دی۔ جاتے ہوئے بھارتی سفارتکاروں اور سکیورٹی عملے نے اپنا سامان بھی پیک نہیں کیا تھا۔ اس ضمن میں بھارتی وزارت خارجہ نے کہا گیا ہے کہ افغانستان میں سکیورٹی کے بگڑتے حالات پر نظر ہے۔ یہ اقدام احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے لیا گیا۔ ہمارا مقصد یہ یقینی بنانا تھا کہ بھارتی عملہ محفوظ ہو۔ہم نے شہر میں لڑائی کے خطرے کو محسوس کیا جو ان کو مشکل صورتحال سے دو چار کر سکتا تھا۔
امسال جون کے مہینے میں دہشت گردی کے حوالے سے اقوام متحدہ کی سالانہ رپورٹ میں تسلیم کیاگیا تھا کہ پاکستان میں دہشت گردی افغانستان سے ہوتی ہے جس میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور جماعت الاحرار ملوث ہیں۔ افغانستان میں ساڑھے 6 ہزار دہشت گرد اب بھی فعال ہیں جو پاکستان کے اندر دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔
افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد بھارت پریشان اور بوکھلاہٹ کا شکا رہو کر بھارتی میڈیا نے پروپیگنڈا شروع کر دیا ہے اور الزام لگایا ہے کہ طالبان نے افغان صوبے ہرات میں بھارت کی طرف سے تقریباً 2 ارب ڈالرز سے بنائے گئے سلما ڈیم کا کنٹرول سنبھال لیا ہے اور 16 ڈیم ملازمین کو بھی مار ڈالا ہے جبکہ افغان حکومت اور طالبان نے ہرات ڈیم پر قبضے سے متعلق بھارتی میڈیا کی خبروں کی تردید کی ہے۔طالبان ذرائع کا کہنا ہے افغانستان کے قومی اور عوامی مفاد کے کسی بھی منصوبے کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔
بھارتی میڈیا یہ پروپیگنڈا بھی کر رہا ہے کہ طالبان نہ صرف غیر ملکی منصوبوں پر قبضے کر رہے ہیں بلکہ حکومتی شخصیات کو بھی مار رہے ہیں۔ بازاروں اور مارکیٹوں میں دھماکے کر رہے ہیں۔ افغان خاندانوں کو وطن چھوڑنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ بھارت نے کابل میں اپنے سفارت خانے کے علاوہ مزار شریف اور قندھار میں قونصل خانوں سے 500 کے قریب اسٹاف کو نکالنے کی تیاری مکمل کر لی ہے۔
انتشار زدہ افغانستان کی آڑ میں بھارت نے معاشی مفادات اٹھائے اور پاکستان میں دہشت گردی کرا کے کمزور کرنے کی کوششیں بھی جاری رکھی ہیں۔ یہ افغانستان کا انتشار ہی ہے جس کے پردے میں بھارت یہ الزام لگاتا ہے کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر میں دہشت گردی کرا رہا ہے کیونکہ اس کے افغان طالبان سے رابطے ہیں۔ افغانستان میں امریکی چھتری تلے جتنی بھی حکومتیں بنی ہیں ان کا جھکاؤ ہمیشہ پاکستان کی بجائے بھارت کی طرف رہا ہے۔ اب بھی افغان صدر اشرف غنی پاکستان پر الزام لگانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے اور بھارت کے کٹھ پتلی بنے ہوئے ہیں۔ اکثر اوقات تودہ بھارت کی زبان بولتے ہیں اور یہ ظاہر کرتے ہیں جیسے بھارت افغانستان کا بہت مخلص دوست ہے۔ مگر اب افغان مسئلہ حل ہونے جا رہا ہے تو بھارت مچھلی کی طرح اس لئے تڑپ رہا ہے کہ اس کی وہاں سے بساط لپیٹی جانے والی ہے۔ نریندر مودی اور ان کے ساتھیوں کو سب سے بڑی تشویش یہ ہے کہ امریکی صدر نے ایک بار بھی ان سے افغان مسئلے کو حل کرانے کے لئے مدد نہیں مانگی،جو معاہدے کے ضامن ممالک ہیں، ان میں بھی بھارت کا نام و نشان نہیں، گویا اسے مکھن میں سے بال کی طرح نکال دیا گیا ہے۔
امریکی وزارت دفاع نے امریکی افواج کے جاری انخلا کے دوران طالبان کی پیش قدمی اور افغانستان کے زیادہ علاقے پر قبضے کی اطلاعات پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ گزشتہ دو عشروں سے زائد کے عرصے میں امریکہ نے افغانستان کو اپنے دفاع کیلئے اربوں ڈالر کے ہتھیار فراہم کئے ہیں اور اب 31اگست سے اپنا فوجی مشن مکمل کرنے کے صدر بائیڈن کے اعلان کے بعد ملک کے کنٹرول کی غیریقینی صورت حال میں اضافہ ہو رہا ہے۔ طالبان نے دعویٰ کیا ہے کہ افغانستان کا 85%حصہ پہلے ہی ان کے قبضے میں آچکا ہے جسے غیرجانبدار مبصرین تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ طالبان کے وفد نے ایک مرتبہ پھر روس کو یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ افغان سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال ہونے نہیں دیں گے۔ افغانستان کی بیس سالہ جنگ کے بعد نیٹو افواج اس ملک سے اپنا انخلا تیز کر چکی ہیں جبکہ طالبان کو پے در پے کامیابیاں مل رہی ہیں اور وہ ملک کے مزید علاقوں پر قابض ہوتے جا رہے ہیں۔