یہ آج کی بات نہیں ہے۔ 1949 سے پاکستان بلا مشروط امریکی حمایت کرنے کے علاوہ فوجی تعاون کرنے میں ہمیشہ سر فہرست رہا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کھلے روز کو عوام سے چھپائے جانے کی ہمیشہ سعی کی جاتی رہی ہے اور ماشاء اللہ آج بھی ایسا ہی کیا جا رہا ہے۔ مثال کے طور پر ماضی میں بڈھ پیر کا فضائی اڈہ، شمسی ائر بیس، جیک آباد کا شہباز ائر بیس اور چکلالہ ائر بیس بھی امریکہ کے زیر استعمال رہے ہیں۔ آپ کو یاد ہو گا یہ ان دنوں کی بات ہے جب امریکہ نے پاکستانی فوجی تعاون کے باوجود سلالہ چیک پوسٹ پر حملہ کر دیا تھا تو نام نہاد حکمرانوں نے عوامی ہمدردیاں سمیٹنے کے لیے زبانی، کلامی امریک ڈرون حملوں کی بھرپو رجھوٹی مذمت کی تھی اور بعد میں یہ انکشاف ہوا تھا کہ ہم نے امریکہ کو اپنے ایئرپورٹ دینے کے علاوہ ان کو ڈرون حملوں کی بھی خود اجازت دی ہوئی تھی۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اس وقت کس وردی والے بہادر حکمران کی حکومت تھی ہاں اس وقت اسی حکمران کی حکومت تھی جو بات بات پر مکا دکھا کر بات کیا کرتا تھا۔ پھر ایک ایسا وقت آیا جب
امریکہ نے سلالہ چیک پوسٹ پر حملہ کر دیا تو عوام پر یہ کھلا راز فاش ہوا کہ امریکی ڈرون حملوں پر ان کو گالیاں دینے والے اس کے بدلے بھاری رقم وصول کر کے اپنے بیرون ملک بینک اکاؤنٹس بھر چکے ہیں۔ محض عوام کو ماموں بنانے کے لیے امریکہ کے خلاف گرما گرم تقریر یں کرتے ہوئے نظر آتے تھے۔ اس لیے آج کوئی یہ ماننے کو تیار نہیں ہے کہ پاکستان امریکہ کو اپنے فضائی اڈے نہیں دے گا۔ اس کے باوجود کہ وزیراعظم پاکستان پارلیمنٹ میں یہ واشگاف الفاظ میں یہ کہہ چکے ہیں کہ ہم امریکہ کو اپنے فضائی اڈے نہیں دیں گے اور دارالخلافہ میں ابسلوٹلی ناٹ کے بینرز آویزاں ہونے کے باوجود جھوٹ کا کھیل کیا جا رہا ہے۔ وزیراعظم کے علاوہ صدر پاکستان عارف علوی صاحب اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی صاحب بھی یہ شورو واویلا کرتے نظر آ رہے ہیں کہ ہم اس بار امریکہ کو اپنے اڈے نہیں دیں گے۔ کیا کیا جائے کوئی اس بات پر یقین کرنے کو تیار نہیں ہے اور کہا جا رہا ہے کہ ماضی کی طرح اب بھی بیک ڈور کچھ اور کیا جا رہا ہے جس کو عوام سے چھپایا گیا ہے جس کی دلیل یہ پیش کی جا رہی ہے کہ امریکہ کھربوں ڈالر خرچ کر کے بغیر کچھ حاصل کیے کیسے یہاں سے نکل جائے۔ امریکہ افغانستان سے انخلا کے بعد ہر قیمت پر رسائی یقینی بنائی جا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی وزیر دفاع نے بڑی پر اعتمادی سے سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کو یہ یقین دلایا ہے کہ پاکستان امریکہ کی ہر سطح پر فوجی تعاون اور مدد جاری رکھے گا شاید اس کے اس اعتماد اور یقین کی بڑی وجہ یہ ہے کہ امریکہ پاکستان کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہو چکا ہے کہ افغانستان سے امریکی افواج کے نکل جانے کے بعد کالعدم تنظیموں کے نان اسٹیٹ ایکٹرز اور افغانستان میں موجود طالبان ایک بار پھر پاکستان میں داخل ہو کر دہشت گردی کو پروان چڑھا سکتے ہیں۔ جس کے سدباب کے لیے پاکستان میں بیٹھ کر ان کی نگرانی کی جانی بہت ضروری ہے۔ اس عمل کے پیچھے دونوں تینوں ملکوں کی بقا ہے۔ میری چھٹی حس یہ کہہ رہی ہے کہ امریکہ اپنے اس مقصد میں کامیاب ہو چکا چند دنوں کی بات ہے اس راز سے بھی پردہ اٹھ جائے گا تاہم میں یہ ضرور کہوں گا کہ اب اس جھوٹ کے کھیل کو بند کر دینا چاہیے اور امریکہ کے ساتھ تعاون جاری رکھنے کے بدلے جو مفاد حاصل کیا جائے اس سے عوام کو بھی آگاہ کر دیا جائے تو اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ سانپ بھی مر جائے گا اور لاٹھی بھی بچ جائے گی۔
جھوٹ کا کھیل
11:41 AM, 16 Jul, 2021