پشاور(لحاظ علی) 2018ء میں پرویز خٹک اور عاطف خان کے مابین چپقلش کے باعث فیصلہ نہیں ہورہا تھا کہ دو تہائی اکثریت حاصل کرنے والی پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے خیبرپختونخوا کا وزیراعلیٰ کون ہوگا؟ لیکن پرویز خٹک کا پلڑا بھاری رہا۔
پرویزخٹک نے اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر کے گھر پر ظہرانے کا اہتمام کیا ، شاہ فرمان کو بھی ساتھ ملا لیا لیکن اسلام آباد میں عمران خان کو اراکین قومی اسمبلی کی ضرورت تھی اور تحریک انصاف کے مرکزی حلقے پرویز خٹک کے دوبارہ وزیراعلیٰ بننے پر راضی بھی نہیں تھے۔ ایسے میں جب پرویز خٹک کو ستاروں کی گردش سے پتہ چل گیا کہ وزرات اعلیٰ کی ہما اب ان کے سر پر بیٹھنے والی نہیں تو انہوں نے عاطف خان کے خلاف درون خانہ اجلاسوں کا سلسلہ شروع کردیا۔ عمران خان کو عاطف خان کے خلاف بدظن کیا گیا اور ایسے میں آپشن کے طور پر محمود خان کا نام سامنے آیا۔ محمود خان نے پرویز خٹک اور کمپنی کو یقین دلایا کہ وزرات اعلیٰ کے مسند کو سنبھالنے کے بعد وہ پرویز خٹک کے مفادات کا خصوصی خیال رکھیں گے اور یوں حادثاتی طور پر محمود خان کے نام پر وزرات اعلیٰ کے مسند کےلئے اتفاق کیا گیا لیکن اس اتفاق میں عاطف خان کی رائے شامل نہیں تھی۔ عاطف خان کو خوش کرنے کےلئے اگست 2018ء میں سینئر وزیر کا عہدہ دیا گیا۔
محمود خان 2005ء میں سوات کے علاقہ مٹہ سے ڈسٹرکٹ کونسلر منتخب ہوئے تھے اور ضلعی کونسل میں وہ اپوزیشن کے بنچوں پر بیٹھا کرتے تھے ، بعد میں سوات آپریشن کے دوران اہل دانش کی نظر میں آگئے اور 2013ءمیں صوبائی اسمبلی کی نشست جیت کر پرویزخٹک کابینہ کے وزیر بن گئے۔ کھیل ، ثقافت اور آبپاشی کے محکموں کے قلمدان کو اپنی تصرف میں رکھا لیکن اختیار پرویزخٹک کے پاس ہی ہوتا تھا۔2018ء میں وزیراعلیٰ بننے کے بعد محمود خان جب سی ایم ہاوس چلے گئے تو وزیراعظم عمران خان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان نے ان کےلئے بیوروکریسی کا انتخاب پہلے سے ہی کیا تھا۔
شہاب علی شاہ کو تین سال سے زائد عرصہ کےلئے وزیراعلیٰ کا پرنسپل سیکرٹری رکھا گیا جہاں معمولی اسامی پر تعیناتی کےلئے بھی اسلام آباد سے منظوری لینی پڑتی تھی۔ اس دوران جب شہاب علی شاہ کی ترقی ہوئی تو افسر شاہی کے اسی حلقے سے سابق کمشنر پشاور امجد علی خان کا انتخاب کیا گیا۔ وزیراعلیٰ محمود خان سوا چار سال کے دوران صرف 9مرتبہ مختصر وقفے کےلئے اسمبلی اجلاس میں شرکت کےلئے گئے تھے جس میں پہلے روز حلف برداری، دوسری مرتبہ وزرارت اعلیٰ کے انتخاب کے ایام بھی شامل ہیں۔ ان 9 دنوں کے دوران محمود خان ایک دن 2022ءمیں صرف اس لئے اسمبلی گئے تھے کہ اکرم خان درانی کی جانب سے ان کے پرنسپل سیکرٹری شہاب علی شاہ سے متعلق جو سوالات اٹھائے گئے تھے اس کا وہ خود جواب دے سکے۔ 4مرتبہ انہوں نے صرف بجٹ اجلاسوں میں شرکت کی۔
صوبائی کابینہ کے ایک اہم رکن نے بتایاکہ محمود خان کی نظریں ہمیشہ تین اشخاص پر ہوتی تھی ، عمران خان، پرویزخٹک اور اعظم خان ۔ آبپاشی کا محکمہ جہاں پرویز خٹک کا سرمایہ لگا ہوا ہے کے تحفظ کےلئے یہ محکمہ پرویزخٹک کے بھائی لیاقت خٹک کو دیاگیا۔ خاندانی اختلافات کے باعث پرویز خٹک کے کہنے پر محمود خان نے وزیر کی مسند پر بیٹھے رہنے کے باوجود لیاقت خٹک سے تمام اختیارات ان کے سیکرٹری طاہر اورکزئی کو منتقل کئے تھے۔ اسلام آباد میں جب ترین گروپ کو فارغ کیاگیا تو اس کے اثرات خیبرپختونخوا کابینہ پر پڑنے لگے جس کے باعث اس گروپ کے کئی اہم افراد جو صوبائی کابینہ کا حصہ تھے فارغ کردیا گیا۔
سوا چار سال کے دوران محمود خان نے بحیثیت وزیراعلیٰ 12وزراء کو فارغ کیا، جس میں صرف تین وزراء عاطف خان، شہرام ترکئی اور شکیل خان کو ہٹاتے وقت ان کی مرضی شامل تھی تاہم بعد میں صلح صفائی کے بعد ان تینوں پارٹی رہنماوں کو دوبارہ کابینہ کا حصہ بنایا گیا لیکن شدید خواہش کے باوجود عاطف خان کو سیاحت اور شہرام ترکئی کو بلدیات کا قلمدان نہیں دیا گیا۔
علی امین گنڈا پور نے واضح کیا تھا کہ بلدیات کا محکمہ صرف ان کے بھائی فیصل امین گنڈا پور کے حصے میں آنا چاہئے اور ان کے اس خواہش کی بھی تکمیل کی گئی۔ اسی طرح پارٹی کے ایک اور رہنما یوسف ایوب کے کہنے پر بھی ان کے بھائیوں کو کابینہ میں جگہ دی گئی۔ محمود خان کو اکثر یہ گلہ رہتا تھا کہ ان انہیں پسند کا ترجمان نہیں ملا اس لئے ان سوا چار سال کے دوران ان کے چار ترجمان مقرر کئے گئے۔ شوکت یوسفزئی، اجمل وزیر، کامران بنگش اور بعدا زاں بیرسٹر محمد علی سیف۔ وزیراعلیٰ کے مسند پر جب تک محمو دخان بیٹھے رہے انہوں نے صوبائی کابینہ میں 32مرتبہ رد وبدل کئے۔ صرف کامران بنگش کا محکمہ تین مرتبہ تبدیل کیا گیا۔
ماضی میں حیدر ہوتی سے متعلق ذکر ہوتا تھا کہ اگر آپ نے صوبائی حکومت سے اگر کوئی کام کروانا ہو تو مردان ہوتی ہاوس میں اعظم ہوتی کے ذریعے کام کیا جاسکتا ہے۔ کابینہ کے ایک انتہائی وزیر نے بتایا کہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے ایک اعلیٰ افسر کو جب مختلف لوگوں نے بہت تنگ کیا تو انہوں نے سوات کی تحصیل مٹہ میں وزیراعلیٰ کے بھائی احمد خان سے اشیر باد لے لی جس کے بعد تمام معاملات پرسکون ہوگئے۔ بیورکریسی سمیت کئی اہم شخصیات نے بھی اس افسر کی تائید کرتے ہوئے یہ عمل دہرایا۔