تحریک عدم اعتماد کا ’’اونٹ‘‘کس کروٹ بیٹھے گا ؟

Pakistan PDM,Molana Fazal ur Rehman,Shahbaz Sharif,PMLN,Long March

تجزیہ:کاشف سلیمان

 لاہور ملکی سیاست کا مرکز رہا ہے اور آج کل ایک بار پھر لاہور سیاسی سرگرمیوں کا گڑھ بنا ہوا ہے۔ متوقع تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کے لیے اپوزیشن اوراسے ناکام بنانے کے لیے حکومت جوڑ توڑ اور نئی صف بندیوں میں مصروف ہے۔

 تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوتی ہے یا ناکام اس کا فیصلہ تو پارلیمنٹ میں ہوگا تاہم اگر حکومت تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانا چاہتی ہے تو سب سے ضروری ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نواز شریف والی غلطی نہ کریں۔ موجودہ سیاسی منظر نامہ کا تجزیہ کریں تو اپوزیشن کی تیزی نے سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ کر دیا ہے کل کے سیاسی دشمن آج ایک دوسرے سے ملاقاتیں کر کے بغلگیر ہو رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے پاس 182ارکان ہیں جبکہ اپوزیشن کے پاس 162ارکان ہیں اتنے کم مارجن کی وجہ سے چھوٹے گروپوں کی اہمیت بڑھ گی ہے یہی وجہ ہے کہ بڑی جماعتیں چھوٹے گروپوں کے ساتھ بھی ملاقاتیں کر کے معاملات طے کر رہی ہیں۔

 تحریک انصاف کی حکومت آنے کے بعد اسے واپس گھر بھیجنے کے لیے اپوزیشن کی جانب سے یہ پہلی سنجیدہ کوشش کی جا رہی ہے یہی وجہ ہے کہ شہباز شریف خود چل کر چوہدری برادران کے گھر گئے اور اس ملاقات کو ساز گار بنانے کے لیے مولانا فضل الرحمن نے کردار ادا کیا۔ اس ملاقات کے بارے میں شاہ محمود قریشی کا یہ کہنا کہ چوہدری برادران کے در پر جانے سے لیگی بیا نیہ دفن ہو گیا تو وہ بتائیں کیا ہماری سیاسی جماعتوں کا کوئی بیا نیہ ہے بھی جو دفن ہونا ہے ۔ یہا ں اکثریت ضرورت کے وقت گدھے کو باپ بنانے والے محاورے کی عملی تصویر ہے۔ ہماری سیاست میں اخلاقیات کی بات صرف بیانات تک محدود ہے اس کا عمل سے کوئی تعلق نہیں ہے، سب ہوا کا رخ دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں اور اس کا انہیں بخوبی علم ہے۔

 شہبا ز شریف اور چوہدری برادران کی ملاقات کے بارے میں تو یہی کہا گیا کہ وہ چوہدری شجاعت حسین کی خیریت دریافت کرنے گئے لیکن کیا یہ اتفاق ہے کہ اچانک ہی شہباز شریف،آصف زرداری، مولانا فضل الرحمن، وسیم اختر سمیت سب کو چوہدری شجاعت کی مزاج پرسی کرنا یاد آ گیا ہے ان کی طبیعت کوئی آج تو خراب نہیں ہوئی وہ تو کافی عرصے سے بیمار ہیں اور ہسپتال میں بھی رہے ہیں تو پھر ایسا کیا ہے۔کیا شہباز شریف ڈیڑھ گھنٹے تک طبیعت کا ہی پوچھتے رہے تو ایسا نہیں ہے اپوزیشن قائدین چوہدری برادران سے تحریک عدم اعتماد میں تعاون مانگ رہے ہیں۔کیا چوہدری برادران اپوزیشن کا ساتھ دیں گے تو اس کا سیدھا جواب تو خود ان کی جماعت کے رہنما دے رہے ہیں کہ ہم ریاست کے ساتھ ہیں اب ریاست سے ان کی کیا مراد ہے یہ سب کو معلوم ہے۔

 چوہدری برادران کمزور وکٹ پر نہیں کھیلتے۔ ایک طرف چوہدری برادران سے اپوزیشن کے قائدین ملاقاتیں کر رہے ہیں تو دوسری طرف مونس الہی وزیر اعظم کو انہیں کا جملہ کہے رہے ہیں کہ آپ نے گھبرانا نہیں تعلق نبھائیں گے تو جواب میں عمران خان نے بھی تاریخی جملہ کہا کہ چوہدری فیملی پر پورا اعتبار ہے۔ پاکستان کے سیاسی منظر نامہ پر جو کچھ نظر آتا ہے پس منظر میں وہ نہیں ہوتا بھٹو نے اپنی حکومت کے آخری دنوں میں ایک اجلاس میں ضیا ء الحق سے پوچھا کیا فوج مارشل لاء لگانا چاہتی ہے ایسا ہے تو میں حکومت چھوڑ کر لاڑکانہ چلا جاتا ہوں تو ضیاء الحق نے جواب دیا نہیں ہمارا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے اور اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔


 ایسے ہی عمران خان جتنا مرضی کہیں کہ انہیں چوہدری فیملی پر پورا اعتبار ہے یا مونس الہی عمران خان سے کہیں گھبرانا نہیں لیکن اپنی اپنی جگہ دونوں کو معلوم ہے کہ وہ ایک دوسرے کے بارے میں کیا رائے اور جذبات رکھتے ہیں جیسے کہ شہباز شریف اور آصف زرداری جتنے مرضی ایک دوسرے سے بغلگیر ہو لیں لیکن دونوں کو پتہ ہے کہ وقتی ضرورت نے انہیں اکٹھا کر دیا ہے ورنہ ایک دوسرے کے بارے میں وہ کیا سوچ رکھتے ہیں یہ ان کے ساتھ قوم کو بھی پتہ ہے۔