جناب مجیب الرحمان شامی نے بہت عرصہ پہلے ہی سوشل میڈیا کو گٹر کہہ دیا تھا مگر اس گٹر کی صفائی کا کوئی انتظام نہیں کیا گیا۔ مسلم لیگ نون کے دور میں کچھ قانون سازی کی گئی مگر ان تمام قوانین کو عوامی اور سیاسی ردعمل کے ڈر سے کبھی استعمال نہیں کیا گیا کیونکہ جو لوگ سوشل میڈیا کو گٹر بناتے ہیں ان کے ساتھ بڑے بڑے گندے نالے ہوتے ہیں، یہ گندے نالے ہر اس شخص پر غلاظت پھینکتے ہیں جو ان کا راستہ روکنے کی کوشش کرتا ہے۔ مجھے افسوس سے کہنا ہے کہ پچھلے دس پندرہ برسوں نے سیاسی کارکن کی تعریف بھی بدل دی ہے۔ کبھی سیاسی کارکن نظریات کے ساتھ ہوا کرتے تھے۔ وہ آپس میں مسائل پر بحث اور ان کے حل کے طریقوں پر اختلاف کیا کرتے تھے، کسی کو حل سیکولرازم میں نظر آتا تھا تو کسی کو مذہب میں، کوئی دائیں بازو کا ہوتا تھا تو کوئی بائیں بازو کا، یہاں تک ہوتا تھا کہ نیشنلسٹ یا سوشلسٹ باقاعدہ طور پر اسلامسٹ گروپوں میں جاسوسی کرنے جاتے تھے کہ وہاں کیا سوچ اور کیا دلائل چل رہے ہیں تاکہ ان کا توڑ کیا جا سکے، ان کا جواب دیا جاسکے مگر اب سیاسی کارکن وہ ہے جو اپنے اپنے لیڈروں کی سوشل میڈیا پر ٹکا کے خوشامد ہی نہیں کرتا بلکہ اس کے مخالفین کو ماں، بہن سمیت ہر مقدس رشتے کی گندی گالیاں دیتا ہے۔ کامیاب وہ ہے جوگندے واقعات گھڑتا ہے اور انہیں پھیلا دیتا ہے۔میں سوشل میڈیا پر کئی کئی لاکھ فالوورز رکھنے والوں کی شکلیںدیکھتا اور باتیں سنتاہوں تو وہ مجھے مریض لگتے ہیں، فرسٹریٹڈ اورایگریسیو، عملی زندگی میں ناکام ترین۔
ابھی حال ہی میں وزیراعظم نے اپنے وزراء کو کارکردگی پر ایوارڈز سے نوازا۔ میں ذاتی طور پر ایسی ایکٹی ویٹی کے خلاف ہوں کیونکہ جب آپ کسی بڑی تنظیم میں ایک بندے کو ایوارڈ دے کر خوش کرتے ہیں تو ساتھ ہی دس، بیس، پچاس کو ناراض کر دیتے ہیں کیونکہ کوئی بھی شخص اپنی اہلیت اور کوشش کی توہین برداشت نہیں کرتا۔ اس پر ایک ٹی وی پروگرام ہوتا ہے جس میں سب سے بہترین قرار دئیے جانے والے وزیر کی کارکردگی پر بحث کرنے کے بجائے ذومعنی حوالے دئیے جاتے ہیں جس کا حکومتی حلقوں میں شدید نوٹس لیاجاتا ہے۔ تمام وزرا سے زبردستی ٹوئیٹ کروانے کی غلطی کروائی جاتی ہے جس سے آپ مخالفین کو جواب کے لئے برانگیختہ کرتے ہیں۔ اب یہاں بھی کارکردگی ہی ڈسکس ہونی چاہئے لیکن سوشل میڈیاگٹر بن چکا ہے تو وہاں سے بدبو اور غلاظت ہی نکلنی تھی۔ ایف آئی اے نے جس سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ کو گرفتار کیا ہے، رضوان رضی تصدیق کر رہے ہیں، اس نے وزیراعظم کے خلاف انتہائی بے ہودہ اور غیر اخلاقی ٹرینڈشروع کروایا۔ ہماری سیاسی جماعتوں نے سوشل میڈیا کی باقاعدہ ٹیمیں بنا رکھی ہیں او ران کو دوسری تنظیم کے متوازی عہدے بھی الاٹ کئے جاتے ہیں۔ یہ سب عہدیدار واٹس ایپ گروپوں کے ذریعے آپس میں منسلک ہوتے ہیں جیسے ایک واٹس ایپ گروپ ہر مرکزی عہدیداروں کا ہوا اور پھر اس کے بعد صوبائی ، ضلعی اور تحصیل کی سطح پر، اس طرح ان لوگوں کو ہزاروں افراد کی سپورٹ مل جاتی ہے اور یہ ایک ہی وقت میں ٹوئیٹنگ شروع کرتے ہیں تو ٹرینڈ ٹاپ پر آجاتا ہے اور یوں لگتا ہے کہ جیسے پوری قوم اسی بارے بات کر رہی ہے حالانکہ یہ چند سو دیہاڑی دار ہوتے ہیں اور عام سوشل میڈیا یوزر ان کی پھیلائے ہوئے جال میں پھنس جاتا ہے۔
جو شخص گرفتار ہوا ہے جب میں نے اس کا اکاؤنٹ چیک کیا تو نوٹس ہوا کہ میں اس کی بدکلامی اور گھٹیا پن پر پہلے ہی کسی موقعے پر بلاک کر چکا ہوں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ نواز لیگ کے تمام سوشل میڈیا ایکٹیویٹس اس کی حمایت میں یوں میدان میں آ گئے ہیں جیسے وہ کوئی گندا ٹرینڈ نہیں چلا رہا تھا اور غلاظت بھرے ٹوئیٹس نہیں کر رہا تھا بلکہ کوئی جہاد کر رہا تھاحالانکہ یہی نواز لیگ اس وقت چیختی اور چلاتی ہے جب ان کے جلاوطن رہنما یا یہاں موجود خاتون رہنما کے بارے میں گندے اور غلیظ ٹرینڈ چلائے جاتے ہیں۔کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ جماعت اسلامی جیسی جماعت کے سوشل میڈیا کا ہیڈ گالی گلوچ کرواتا ہے اور اس کو اپنی کارکردگی سمجھتا ہے۔یہاں نواز لیگ کے لوگوں کی طرف سے درست سوال اٹھایا جاتا ہے کہ اگر ایف آئی اے ان کی پارٹی کے ایسے لوگوں کو اٹھاتی ہے تو وہ حکمران جماعت کے لوگوں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کرتی۔ میرا خیال ہے کہ مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی کو بھی ایسے لوگوں کی نشاندہی کر کے ان کے خلاف مقدمات درج کروانے چاہئیں جیسے نواز لیگ کی رہنما کے منڈی بہاؤالدین کے دورے پر ٹرینڈ بنایا گیا یا ایک وفاقی وزیر ، بلاول بھٹو زرداری کے بارے ذومعنی گفتگو کرتا ہے۔ اب المیہ یہ ہے کہ غلیظ ترین گفتگو کرنے والے کے ٹوئیٹس اور ٹرینڈز کو آزادی اظہار رائے قرار دیا جا رہا ہے حالانکہ یہ شخص جس پارٹی کے مبینہ طور پر پے رول پر ہے اسی کے صدر کی طر ف سے مخالفین کو شامل کروانے پر ٹرولنگ کرواتا رہا ہے اور یہ ٹوئیٹ ابھی تک اس کی پروفائل پر موجود ہیں۔ نواز لیگ ہی نہیں بلکہ پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو ان ذاتی ملازموں سے جان چھڑوانی ہوگی۔ آپس میں ایک میثاق اخلاقیات کرنا ہوگا کہ آج کے بعد سوشل میڈیا پر صرف سیاسی اختلاف ہو گا اور جو کوئی گالی دے گا، بدگوئی کرے گا اس کا ساتھ نہیں دیا جائے گا جیسے مریم نواز نے نہ صرف اس کے حق میں ٹوئیٹ کی بلکہ ان کامیڈیا سیل بار بار کوشش کر رہا ہے کہ اس کی واپسی کا ایشو ٹاپ ٹرینڈ بنا رہے۔
سوشل میڈیا کی گندگی کو دیکھتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ابھی تک الیکٹرانک میڈیا خود پر ہونے والی تمام تر تنقید اور جانبداری کی شکایات کے باوجود کس حد تک پاک، صاف اور ذمہ دار ہے۔ہم یہ کہا کرتے تھے کہ الیکٹرانک میڈیا کی پہنچ لوگوں کے ڈرائنگ روموں اور بیڈ روموں تک ہے۔ الیکٹرانک میڈیا تو پھر سب ساتھ بیٹھ کر دیکھتے تھے اور ہیں مگر سوشل میڈیا تو سب کے اپنے اپنے ہاتھ میں ہے اوراتنا ہی پرائیویٹ ہے جتنا کوئی اپنے واش روم میں ہوسکتا ہے اور افسوس کی بات ہے کہ پھر لوگ وہی کچھ کرتے ہیں جو ٹوائلٹ میں کرتے ہیں یعنی اپنی گندگی باہر نکالتے ہیں اور پھر ہر طرف پھیلا دیتے ہیں۔میں رائے رکھنے کا حامی ہوں، سیاسی اختلاف کا حامی ہوں مگر گالی کا سخت مخالف ہوں۔ کیا یہ المیہ نہیں کہ جو جتنازیادہ بدکردار اور بدکلام ہوتا ہے وہ اتنی زیادہ مقبولیت حاصل کرلیتا ہے جیسے ایک عورت، جس کا ہرٹوئیٹ بہن کی گالی کے ساتھ ہوتا ہے اور وہ اسی پر فالوئنگ لئے جا رہی ہے۔
میں بطور صحافی سمجھتا ہوں کہ ہمیں حکومت پر تنقید کرنی ہے، بیڈ گورننس سے عوامی مشکلات کو سامنے لانا ہے مگر ہمیںبدگوئی کی حمایت نہیں کرنی، ہمیں الزامات کی جگالی نہیں کرنی۔ ہمیں گالی دینے والوں کی صر ف اس لئے تحفظ نہیں دینا کہ وہ ہمارے نظریاتی دھڑے سے تعلق رکھتے ہیں، اس کے پے رول پر ہیں، اس کے ایجنٹ ہیں۔میں ان لوگوں سے کہتا ہوں کہ آپ نے نواز شریف، عمران خان، آصف زرداری یا سراج الحق کی قبر میں نہیں جانا، اپنی میں جانا ہے اوراپنی دی ہوئی گالی ، بدکلامی اور الزام کا خود حساب دینا ہے، کچھ تو یہاں دے رہے ہیں کچھ اگلے جہاں میں دیں گے، ضرور، ان شاء اللہ۔