جب سے تحریکِ عدمِ اعتماد کی بات چلی ہے سیاسی جماعتوں میں نہ صرف رابطے بڑھے ہیں بلکہ ملاقاتوں میں بھی تیزی آئی ہے ایسے لگتا ہے کہ پہلی بار اپوزیشن آئینی طریقے سے تبدیلی لانے میں سنجیدہ ہے حالانکہ قبل ازیں اگر پی پی عدمِ اعتماد لانے کی بات کرتی تو ن لیگ جواب میں احتجاج کی تجویز پیش کرتے ہوئے لڑنے لگتی مولانا فضل الرحمٰن دونوں کو منانے اور اتفاق کے لیے قائل کرنے کی کوشش کرتے مگرساری بھاگ دوڑ کا نتیجہ یہ نکلتا کہ اتفاق کے بجائے اکثر دونوں نے راہیں ہی جداکرلیں جس پر چھوٹی جماعتیں بھنا کررہ جاتیں اسی بناپر حکومت کے لیے کوئی خاص بڑا مسئلہ پیدا نہ ہوامگر اب کچھ اتفاقِ رائے کی صورت بننے لگی ہے لیکن کیا عدمِ اعتماد کی تحریک پیش ہو گی اور کامیابی سے ہمکنار بھی ہوگی ؟صورتحال کچھ زیادہ واضح نہیں بظاہرتحریکِ عدمِ اعتماد پیش ہونے کا امکان ہے لیکن بادیٔ النظر میںکامیابی کا امکان کم ہے۔
پیپلز پارٹی اِس بنا پر خوش ہے کہ اُس کی تجویز نہ صرف تسلیم کر لی گئی ہے بلکہ عملی طور پراپوزیشن جماعتوں نے کام بھی شروع کردیا ہے لیکن پارلیمان میں وہ عددی اعتبار سے تیسرے جبکہ ن لیگ دوسرے نمبر پر ہے شہباز شریف کواِس حقیقت کا مکمل ادراک ہے کہ حکومت کے خلاف عدمِ اعتماد کی تحریک پیش کرناجتنا سہل کامیاب کرانا اتنا ہی مشکل ہے موجودہ دورِ حکومت میں سینٹ جہاں اپوزیشن کو واضح اکثریت حاصل ہے چیئرمین سینٹ کے خلاف پیش کی گئی عدمِ اعتماد کی تحریک بُری طرح ناکام ہوچکی حالانکہ اُن کا تعلق حکومتی جماعت سے نہیں اب اگر وزیرِ اعظم کے خلاف تحریک پیش کی جاتی ہے تو ظاہرہے حکومتی جماعت ناکام بنانے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے گی اِس لیے وسائل کے اِس پہاڑ کو مدِ نظر رکھنا ہوگا عمران خان وزارتوں کی کارکردگی جانچنے کے بعد انعامات سے نوازنے کی حماقت کر چکے جس پر کئی وزراء جزبز ہیں مگر وزارت سے الگ ہونے کا کڑوا گھونٹ پینے کو تیار نہیں اگرتصور کرلیں کہ عدمِ اعتماد کامیاب ہو جائے گی تو اگلا سیٹ اَپ کیا ہوگا ؟ نئی حکومت بنے گی یا عام انتخابات ہوں گے ؟ نئی حکومت بننے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے بلکہ عام انتخابات ہی قرین قیاس ہیں حکمران جماعت کے کسی ممبراسمبلی کے لیے ایسی صورتحال پُرکشش نہیں ہو سکتی جب کہ شاہد خاقان عباسی حکومت بنانے کے بجائے انتخابات کا عندیہ دے چکے ہیں ایم کیوایم ،ق لیگ اور ترین کوساتھ ملاکر تبدیلی لانے کی بات بن سکتی ہے لیکن چودھری برادران کوفوری طورپر ساتھ ملانا خاصا دشوار ہے چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی کو قریب سے جاننے والے بخوبی جانتے ہیں کہ وہ موقع اور دائو کی تاک میں رہنے والے سیاستدان نہیں بلکہ وضع دار لوگ ہیں جس کے ساتھ ہوتے ہیںسیاسی نقصان اُٹھانے کے باوجود الگ نہیں ہوتے کیونکہ وہ حکومت کے اتحادی بن چکے ہیں اب الگ نہیں ہو سکتے اسی طرف چودھری مونس الٰہی نے اپنی تقریر میں اشارہ بھی دیا کہ حکومت کہیں نہیں جارہی سیاسی لوگ ملتے رہتے ہیں وزیرِ اعظم اپنے وزراء کو اچھی طرح گھبرانا نہیں سمجھا دیں۔
سیاسی لوگ نفرتیں اور دشمنیاںنہیں بڑھاتے البتہ حالات کے ساتھ باہمی تعلقات میں گرم جوشی یا سرد مہری آنا خارج از امکان نہیںلیکن ق لیگ اور ن لیگ میں گزشتہ کئی برس سے نچلی سطح پر سلسلہ جنبانی ہونے کے باوجود اعلیٰ سطح پر روابط نہ ہونے کے برابر رہے حالانکہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ سیاست میں چودھری شجاعت حسین ایک حقیقت ہیں جنھیں نظر انداز کرنا ممکن نہیں پھر بھی ن لیگ نے مسلسل نظر اندازکیے
رکھا چودھری پرویز الٰہی کی طرف سے بطور وزیراعلیٰ شریف خاندان سے حسن سلوک کا یہ صلہ دیا گیا کہ 2008 میں اُن کی جماعت سے یونیفکیشن بلاک بنا کر ایک سے زائد بار اِس امر کا اظہار کیا گیا کہ ہر بندے سے بات ہو سکتی ہے لیکن چودھری برادران سے نہیں 2013 کے چنائو کے بعد ن لیگ نے مرکز سمیت پنجاب میں حکومتیں بنائیں تو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت چودھری برادران کا سیاسی خاتمہ کرنے کی کوشش کی گئی کیونکہ ق لیگ کے صرف دوممبر قومی اسمبلی منتخب ہوسکے اِس لیے چودھری برادران نے بھی فوری جواب دینے کے بجائے دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی اپنا لی پانامہ لیکس کے دھماکے تک یہی پالیسی رکھی یہ نفرت اُس وقت کُھل کر سامنے آئی جب عمران خان اور طاہرالقادری نے لانگ مارچ کاقصدکیادھرنے کے شرکاکو کھانے سے لیکر دیگر لوازمات فراہم کرنے میں چودھریوں نے کلیدی کردار ادا کیا اور کوشش کی کہ دھرنا جلد ختم نہ ہو اِس دھرنے سے نواز شریف کی حکومت تو ختم نہ ہو سکی مگر نواز شریف کا اعتماد ضرور ختم ہوگیا پھر جوہواوہ تاریخ ہے۔
2018کے عام انتخابات سے قبل ہی تحریکِ انصاف اور ق لیگ کافی قریب آ گئی تھیں ن لیگ کو شکست سے دوچارکرنے کے لیے چودھری برادران اتنا آگے چلے گئے کہ کئی اہم امیدواروں کو بلے کے نشان پرمحض اِس لیے میدان میں اُتارنا گوارہ کر لیا تاکہ ن لیگ کے امیدوار نہ جیت سکیں مگر حکومتوں کی تشکیل کا وقت آیا تو پی ٹی آئی نے نظر انداز کر نا شروع کر دیا اور معاہدے کے مطابق وزارتیں دینے میں لیت و لعل سے کام لینے لگی چودھری مونس الٰہی کو وزارت دینے میں اتنی تاخیر کر دی گئی کہ آخر کارتنگ آکر چودھری برادران کو کہناپڑا کہ ہم وزارت ہی نہیں لینا چاہتے یوں دوریاں جنم لینے لگیں جن میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا گیا چودھری پرویز الٰہی جو افہام و تفہیم پر یقین رکھتے ہیں کوبھی مجبوراََ کہناپڑاکہ ہم تو حکومت کا ساتھ دے رہے ہیںمگر حکومت ہمارا ساتھ نہیں دے رہی لیکن حکومت کے کسی ذمہ دارنے نوٹس تک نہ لیا مولانا فضل الرحمٰن کا دھرنا ہو یا پنجاب میں بلامقابلہ سنیٹر منتخب کرانا چودھری پرویز الٰہی نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا پھربھی حکومتی صفوں میں اتحادیوں کے متعلق بے یقینی ختم نہ ہوئی ۔
چاہے خوشی ہو،عیادت ہو یا تعزیت کا موقع سیاسی لوگ ملاقات کے دوران حالاتِ حاضرہ پر لازمی بات کرتے ہیں آصف زرداری سے چودھری برادران کا ذاتی ساتعلق بن چکا ہے مولانا فضل الرحمٰن بھی اُن کا احترام کرتے ہیں عوامی نیشنل پارٹی سے بھی قربت ہے ایم کیو ایم سے بھی کوئی خاص نفرت نہیں مگر ن لیگ سے دوری میں کمی نہ آسکی حالانکہ حمزہ شہباز کو اسمبلی اجلاس میں شرکت سے روکنے کے لیے حکومت نے ہر ممکن کوشش کی مگر تمام تر نقصان اُٹھانے کے باوجود سپیکر چودھری پرویز الٰہی نے رواداری کا مظاہر ہ کیا اور اپوزیشن لیڈر کی ہر اجلاس میں شرکت کو یقینی بنایاخواجہ سلیمان رفیق ودیگر کے بحیثیت ممبر اسمبلی استحقاق کابھی خیال رکھاجس کا شکریہ ادا کرنے دونوں بھائی خواجہ سعد رفیق اور سلیمان رفیق اکٹھے چودھری پرویز الٰہی کے گھر بھی آئے آصف زرداری بات کرتے ہوئے پنجاب چودھری برادران کے حوالے کرنے کی بات کرتے ہیں تو وجہ یہ ہے کہ پنجاب میں چودھری برادران کے سیاسی اور ذاتی تعلقات بہت وسیع ہیں جہانگیرترین سے بھی چودھری برادران کا اچھا تعلق ہے اسی لیے اب ہر سیاسی جماعت کی خواہش ہے کہ ق لیگ کی قیادت کوتبدیلی لانے کے لیے ساتھ ملایا جائے۔
چودھری شجاعت حسین کی عیادت کے لیے میاں نواز شریف نے ایک سے زائد بار ٹیلی فون کیا مگر میاں شہاز شریف کو خدشہ رہا کہ شاید چودھری پرویز الٰہی ملاقات کے دوران کوئی کڑوی کسیلی بات نہ کہہ دیں اسی لیے پہلے آصف زرداری مل کر گئے پھر مولانا فضل الرحمٰن نے مل کر ہاتھ ہلکا رکھنے کی درخواست کی کچھ تبلیغی جماعت سے وابستہ لوگوں نے بھی پنجاب کے دونوں بڑے سیاسی خاندانوں میں ملاقات کرانے میں کردارادا کیا جس سے میاں شہباز شریف کی چودھری ہائوس میں نہ صرف ملاقات کی راہ ہموار ہوئی بلکہ خوشگوار ماحول بھی دیکھنے کو ملا حالانکہ ماڈل ٹائون یا جاتی عمرہ سے گلبرگ کا چودھری ہائوس چند منٹ کی مسافت پر ہے مگر یہ چند منٹ کی مسافت کو جذباتی بیان بازی و فیصلوںنے ناممکن بنائے رکھا۔
شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی کی میاں شہبازشریف سے ملاقات کے دوران عدمِ اعتماد کے حوالے سے کوئی بات نہیں ہوئی البتہ دونوں طرف سے ماضی کی خوشگوار یادیں ضرور تازہ کی گئیں چودھری شجاعت حسین نے عیادت کے لیے ٹیلی فون کرنے پر نواز شریف کا شکریہ ادا کیا چودھری برادران کہے کا پاس کرتے ہیں جب انھوںنے کہہ دیا ہے کہ پانچ برس حکومت کا ساتھ دیں گے تو ذیادہ امکان یہی ہے کہ وہ وعدہ نبھائیں گے ملاقات کے دوران نہ تو تعاون مانگا گیا نہ ہی جواب میں فیصلے کے لیے وقت طلب کیا گیا لہذا حکومت کو فوری کوئی خطرہ نہیں لیکن باپ کی طرف سے اشارے ملنا بند ہونے کی تصدیق کے لیے سیاسی لوگ سُن گُن لینے میں مصروف ہیں مگر ق لیگ کو جلد کچھ مزید سیاسی کامیابیاں مل سکتی ہیں کیونکہ پنجاب میں وہ فیصلہ کُن طاقت کا ایسا مرکزبن کر سامنے آئی ہے جسے اپوزیشن یا حکومت دونوں کے لیے نظر انداز کرناممکن نہیں۔