یوں توصبح سے شام تک دینی مدارس میں انوارات وبرکات کاسلسلہ جاری وساری رہتاہے لیکن اسلامی اعتبارسے رجب کامہینہ چونکہ مدارس میں تعلیمی سرگرمیوں کاآخری مہینہ ہوتاہے اوراسی مہینے کے اندرتمام مدارس میں ختم بخاری شریف سمیت قرآن مجیدفرقان حمیدکواپنے سینوں میں محفوظ کرنے والے حفاظ کرام کے لئے دستاروفضیلت اورعظمت قرآن کانفرنسزکاانعقادبھی ہوتاہے اس لئے اس مہینے میں انوارات وبرکات کاوہ سلسلہ ڈبل اورٹرپل ہوجاتاہے۔اس مہینے کواگردینی مدارس کاموسم بہارکہاجائے توبے جانہ ہوگاکیونکہ اس مہینے میں تمام دینی مدارس کے اندر ہرطرف رحمتوں اوربرکتوں کی بہارہی بہارہوتی ہے ۔ویسے بھی مدرسے کی چٹائی پربیٹھ کرخشک روٹی کھانے کاجومزہ ہے آپ یقین کریں وہ کسی فور اورفائیوسٹارہوٹل میں مٹن،چکن،بریانی اورکباب کھانے میں بھی نہیں پھراس طرح کے روحانی محافل اورتقریبات میں شرکت کی توبات ہی کچھ اورہے۔اسی وجہ سے میری خواہش ہے کہ میراجیساہرگنہگار دینی مدارس میں ہونے والی ہرتقریب اورکانفرنس میں شرکت کواپنے اوپرفرض ولازم کرے کیونکہ ان تقریبات،محافل اورکانفرنسزمیں شرکت وشمولیت سے دل ودماغ اورروح کوجوٹھنڈک ،جوسکون اورجوراحت پہنچتی ہے واللہ اس کولفظوں میں بیان کرناممکن نہیں۔ مولاناقاضی اسرائیل گڑنگی کانہ صرف ہزارہ بلکہ علمی حلقوں اوردنیامیں ایک بہت بڑااورمعتبرنام ہے۔ درجنوں کتابوں کی تصنیف،تالیف اوراشاعت کے ساتھ حضرت ایک طویل عرصے سے ملک کے طول وعرض میںدین کے فروغ اور سربلندی کے لئے جوخدمات سرانجام دے رہے ہیں وہ نہ صرف قابل تعریف بلکہ قابل تحسین بھی ہیں۔یوں توقاضی صاحب کی سرپرستی میں اس وقت کئی دینی مدارس چل رہے ہیں اورتقریباًہرمدرسے میں باقاعدگی کے ساتھ روحانی محافل،تقریبات اور کانفرنسز کا انعقادبھی ہوتارہتاہے لیکن مانسہرہ اپرچنئی میں لڑکیوں کے لئے قائم کردہ جامعتہ البنات صدیقہ کائنات میں جب بھی کوئی محفل،کوئی تقریب یاکوئی ختم شریف ہوتوقاضی اسرائیل گڑنگی اس گنہگار کونہ صرف یادکرتے ہیں بلکہ خصوصی طورپر مدعو بھی کرتے ہیں۔ دیگر مدارس کی طرح
قاضی صاحب کے اس مدرسے میں بھی ہرسال ختم بخاری شریف کے سلسلے میں ایک پروقارتقریب اورمحفل کاانعقادکیاجاتاہے جس میں میرے جیسے بہت سے گنہگاروں کوملک کے کونے کونے سے آنے والے بزرگان دین اور نامورعلمائے کرام سے استفادے کاموقع ملتاہے۔امسال بھی ختم بخاری شریف کی بابرکت محفل میں شرکت کے لئے ہفتہ قبل قاضی صاحب نے خصوصی دعوت دینے کے ساتھ لازمی شرکت کی بھی تاکید کی لیکن شائداس باراللہ کویہ منظورنہ تھا۔کچھ ناگزیروجوہات کی بنا پر اس سال میں نہ صرف اس پرنوراوربابرکت محفل میں شرکت سے محروم رہابلکہ راولپنڈی میں قریبی عزیزانس خان سواتی جنہوں نے اس سال درس نظامی کا آٹھ سالہ کورس مکمل کرکے سندفراغت حاصل کی اس کی دستاربندی اوربرادرم مولاناضیاء الحق حقانی کے مدرسے جامعہ ضیاء القرآن شاہ خالدکالونی میں منعقدہ عظمت قرآن کانفرنس میں بھی شرکت نہیں کرسکا۔شرعی عذراورکچھ بڑی مجبوریوں کی وجہ سے ان بابرکت محافل میں شریک ہوناممکن ہی نہ تھالیکن پھربھی ان محافل اورتقریبات میں شرکت نہ کرنے کاافسوس ہمیشہ رہے گا۔ایسی بابرکت محافل اورپرنورتقریبات روزروزمنعقدنہیں ہوتیں نہ ہی اللہ کی ایسی پسندیدہ ہستیوں، بزرگان دین اورنامورعلمائے کرام کوسننے کے مواقع کوئی روزروز ملتے ہیں۔مفتی تقی عثمانی، مولانا محمودالحسن، پیر ذوالفقار نقشبندی اور مولاناقاضی خلیل جیسے بزرگوں اوراللہ کے ولیوں کی زیارت یہ قسمت ونصیب والوں کوہی نصیب ہوتی ہے۔انہی بزرگوں کی برکت سے ہی تویہ نظام قائم اوریہ دنیا آباد ہے۔ یہ مدارس نہ ہوتے، یہ مساجدنہ ہوتے اور اگریہ بزرگ نہ ہوتے تومعلوم نہیں کہ پھر ہمارا کیا انجام ہوتا۔؟ ہم 2005کے قیامت خیززلزلے کوبھولے ہیں نہ ہی اس ملک میں درجنوں وسیکڑوں جانیں نگلنے والے طوفانی وسیلابی عذاب ہمارے دل ودماغ سے نکلے ہیں۔بحیثیت مسلمان ہماراتویہ ایمان اورعقیدہ ہے کہ اس زمین پرجوکچھ ہے اس کا حقیقی مالک ووارث خدافقط ایک خداہی توہے۔پھراس خداکی رضااسی میں ہے کہ ہم سب اپنے اس رب کی نافرمانیوں اورسرکشیوں سے بچے رہیں ۔اس زمین پریہی مدارس اوریہی مساجدتوہیں جوہرطرف اورہرسوخیرہی خیر پھیلا رہے ہیں ۔ان سے ہٹ کرتوشرہی شر ہے۔ دنیاوی علوم وہنریہ ہماری ضرورت ہے۔ اس دنیامیں زندہ رہنے کے لئے دنیاوی علوم پر دسترس اورہنرضروری ہے لیکن ہمارا مقصداورہمیشہ کی ضرورت دینی علوم سے ہی وابستہ اورپیوستہ ہے۔ یہ مدارس اوریہ مساجداگرآبادرہیں گے توہی یہ دنیاقائم اورہم اللہ کی ناراضی، امتحان، آزمائش اور عذابوں سے محفوظ رہیں گے۔کیونکہ یہی وہ مدارس اورمساجدہیں جن کے ذریعے ہم اپنے رب کونہ صرف مسلسل یادبلکہ راضی بھی رکھ سکتے ہیں۔آج دنیاکی محبت اورپیٹ کے جہنم کوبھرنے کی فکرنے ہمیں اس قدر اندھا اور غافل کردیاہے کہ آج ہم ان مدارس اورمساجدسے دور بہت دوربھاگ رہے ہیں۔انہی مساجدومدارس سے دوربھاگنے اورکنارہ کرنے کی وجہ سے اس وقت ہمارے لئے کہیں کوئی سکون نہیں۔ آج ہر شخص مارا مارا پھر رہا ہے۔ راحت، چین اورسکون ملنے کے طورطریقے چھوڑکرآج ہم دنیاکی عیش وعشرت اورمستی میں سکون تلاش کررہے ہیں۔نائٹ کلب اوربازاروں میں جانا تو ہمارے لئے آسان ہے مگر مساجد اور مدارس کے لئے دومنٹ نکالنا ہمارے لئے ممکن نہیں۔ یہ زندگی جیسے تیسے بھی ہویہ گزرجائے گی لیکن مزہ تب ہوگاجب یہی زندگی اللہ کے احکامات اورپیارے آقاﷺکے مبارک طریقوں کے مطابق گزرے گی کیونکہ یہی زندگی کااصل مقصدہے۔ہم اگرچاہتے ہیں کہ ہماری دنیاکے ساتھ آخرت کابھی کچھ بھلاہوتوپھراس کے لئے ہمیں ان مساجدومدارس کارخ کرناہوگا۔ آج ہرگلی،ہرمحلے اورہرشہرمیں مدرسہ ہے۔پھرآج کل ان مدارس میں انوارات وبرکات کاموسم بہاربھی چل رہاہے۔ہم اگران مدارس کوزیادہ وقت یاپوری زندگی نہیں دے سکتے توپھرکم ازکم ہمیں نیکیوں کے اس موسم بہارسے ضرورفائدہ اٹھانا چاہئے۔ہرمدر سے کادروازہ آپ کے لئے کھلاہے۔آپ صرف ایک باراپنے روٹھے رب کوراضی کرنے کے لئے ان مدارس کارخ کریں مجھے یقین وامیدہے کہ آپ کوہرمدرسے کے دروازے پرمرحبامرحبایاشیخ کہنے کے لئے چاہتیں،محبتیں اورمسکراہٹیں لئے کوئی نہ کوئی قاضی اسرائیل گڑنگی اورمولاناضیاء الحق حقانی ضرورموجودہوگا۔آپ ایک بارسکون کے اس راستے کاانتخاب توکریں پھردیکھیں برکات وانوارات کی بارش آپ پرہوتی ہے کہ نہیں۔اس بے رحم دنیامیں دلی سکون پانے اورروٹھے رب کومنانے کے لئے مساجدومدارس سے بہتراورکوئی جگہ نہیں۔