ویلنٹائن ڈے اورہماری تربیت

16-Feb-18

ویلنٹائن ڈے اس وقت دنیا کے تمام ممالک میں منایا جاتا ہے ۔ اگرچہ تقریباً تمام اسلامی ممالک میں سرکاری طور پر اس کا اعلان نہیں کیا جاتا۔ پاکستان میں سال 2017 میں عدالت کی طرف سے بھی اس تہوار کو پبلک مقام پر منانے پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ اگر ہم ویلنٹائن ڈے منانے والے سے اس دن کی تاریخ اور وجہ پوچھیں تو 90 فیصد لوگ لاعلم ہوں گے۔


اس تہوار کی تاریخ اور وجہ پر نظر ڈالیں تو جو بات مشترکہ طور پر سامنے آتی ہے وہ یہ کہ اس کا آغاز آج سے کئی صدیوں پہلے ہوا تھا ۔ ایک رومی عیسائی پادری سینٹ ویلنٹائن کو ناجائز تعلقات کی بنیاد پر قتل کر دیا گیا تھا۔ اس کی یاد میں یہ دن تہوار کی صورت اختیار کر گیا۔


عیسائیت میں بطور مذہبب اب بھی اس کی اجازت نہیں ۔ اور اگر بطور ایک انسان اس دن کے طریقہ کار پر غور کریں تو بھی یہ انسانیت کے خلاف نظر آتا ہے مہذب معاشرہ میں کون ایسا شخص ہے جو یہ گوارہ کرے کہ اس کی بہن، بیٹی سر عام غیر لوگوں سے تعلق استوار کرتی نظر آئے۔ جب ہم اپنی فیملی ممبر کیلئے ایسا ہوتا نہیں دیکھتے تو کیسے کسی اور کے ساتھ خود کر سکتے ہیں۔


محبت ایک فطری عمل ہے ، اسلام دینِ محبت ہے۔اور یہ امن و محبت ہی اسلام کی خوشبو ہے جس کی مہک سے بھائی چارہ کی فضا قائم ہوتی ہے۔ محبت کی تعلیم قرآن کی آیات اور حدیثِ مبارکہ موجود ہیں۔امام جلال الدین السیوطی اپنی کتاب الجامع الصغیرمیں ایک حدیث پاک نقل فرماتے ہیں
اپنی اولاد کو تین چیزو کا ادب سکھاؤ ۔ اپنے نبی کی محبت، اہل بیت کی محبت اور قرآن کی تلاوت کا ادب ( سیوطی الجامع الصغیر 1: 25 رقم 311)

بطور مسلمان اگر ہم دیکھیں تو یہ بات واضحی ہے کہ اسلام شرم و حیاکا دین ہے۔ خواتین کی عزت و عصمت کی حفاظت کا دین ہے۔ جہاں خواتین کو پردے کا حکم دیتا ہے وہاں مردوں کو بھی نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دیتا ہے۔ اسلام میں محبت کا انکار نہیں ہے ۔ مگر ہم نے اس دور میں لفظ محبت کو بدنام کر رکھ دیا ہے ۔ جب لفظ محبت بولا جاتا ہے توذہین میں ایک مرد اور عورت کی محبت کا تصور آتا ہے ۔ اور یہ خیال آئے بھی کیسے نہ والدین کا ادب ، خونی رشتے داروں کا حق، بڑوں کی احترام، خواتین کی عزت، اساتذہ کا مقام غراباء و مساکین سے ہمدردی، لاچار و مجبور لوگوں کا احساس کے متعلق جب ہمیں والدین اورمعاشرہ سے درس و تدریس نہیں ملے گی تو پھر محبت ایک جنسی تعلق تک ہی محدود ہو کر رہ جائے گی۔ یہ میڈیا کا دور ہے اور والدین خود اس میڈیا کا شکار ہو کر اپنے بچوں کی پرورش اس دور کے تقاضے پورے کرتے ہوئے نہیں کرے گے تو پھر ہمارے بچے ویلنٹائن ڈے نہیں منائیں گے تو کیا کریں گے۔

اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے ، نوجوان نسل اس طرح کی بے راہ روی سے بچیں تو ہمیں گھروں میں تربیت کا طریقہ تبدیل کرنا ہو گا ۔ ہمیں اپنے بچوں کو وقت دینے کیلئے اپنے شب وروز کی مصروفیات کا جائزہ لینا ہو گا۔ اور اس کے ساتھ میڈیا کو بھی اپنا کردار ادا کرتے ہوئے اس دن کو پرموٹ کرنے کی بجائے ، اس کی تشہیرسے گریز کرنا ہو گا۔

بلاگر:صادق مصطفوی

(ادارے کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں )

مزیدخبریں