اسلام آباد:سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعت منگل تک ملتوی کرتے ہوئے چیئر مین نیب اور چیئر مین ایف بی آر کو طلب کر لیا. جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کاوقت ضائع کیا جارہا ہے. ایسا نہ ہو کہ انہیں پھر دوائی کھانی پڑے ،جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ایڈووکیٹ سلمان اکرم راجہ سے کہاکہ اتنے بڑے کاروبار اور لین دین کا آپ نے کوئی حساب نہیں رکھا،آپ جوا کھیل رہے ہیں اور جوا کسی کے حق میں بھی جا سکتا ہے۔
اس سے قبل سپریم کورٹ میں وزیراعظم کے بچوں کے وکیل سلمان اکرم راجہ کے دلائل مکمل کئے اورحسین نواز کے ملکیتی فلیٹس سے متعلق مزید دستاویزات بھی جمع کرا ئیں۔
بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سلمان اکرم راجہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کہتے ہیں کہ سارا سرمایہ قطری نے دیا،اتنے بڑے کاروبار اور لین دین کا آپ نے کوئی حساب نہیں رکھا،،، کیا دستاویزات نہ دینا آپ کی حکمت عملی ہے ؟جسٹس آصف کھوسہ کا مزید کہنا تھا کہ اسی لیے تو وہ کہہ رہے ہیں کہ آپ جوا کھیل رہے ہیں اور جوا کسی کے حق میں بھی جا سکتا ہے۔وزیراعظم نے فلیٹس خریدنے کا بیان دیا بچوں نے تردید کردی جبکہ فنڈز کی وضاحت بھی اطمینان بخش نہیں۔
جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دئیے کہ ھمارا وقت ضائع کیا جار ہا ہے ،مقدمہ صرف یہ ہے کہ مریم جائیداد کی بینیفیشل ٹرسٹی ہیں یا نہیں،اگر ہم وزیر اعظم کی تقاریر کونظر انداز کرتے ہیں تو قصوروار ہوتے ہیں۔ انہوں نے سلمان راجہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ دھیان کریں مجھے کہیں دوبارہ دوائی نہ کھانی پڑ جائے۔ جسٹس اعجاز افضل نے وزیر اعظم کے بچوں کے وکیل سے استفسار کیا کہ اگر نعیم بخاری کے دستاویزات کی تصدیق ہو جاتی ہے تو آپ کی کہانی کہاں جائے گی، اس سے پہلے سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیئے کہ لگتا ہے موزیک والی دستاویزات فراڈ کر کے تیار کی گئیں۔
سماعت کا وقت مکمل ہونے پر عدالت نے کیس کی سماعت منگل تک ملتوی کرتے ہوئے چیئرمین نیب ،چیئر مین ایف بی آر کو طلب کرلیا ،عدالت نے قرار دیا کہ اگلے ہفتے سماعت صرف تین روز ہوگی ۔
پاناما کیس کی سماعت شروع ہوئی تو وزیراعظم کے بیٹوں کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے منروا سروسز کا ریکارڈ جمع کرا دیا۔ عدالت کا کہنا تھا کہ دستاویزات سےثابت کریں کہ حسین نوازکمپنیاں چلا رہے تھے،حسین نواز کے پاس اتنی مہنگی جائیداد خریدنے کے لیے سرمایہ نہیں تھا۔ شواہد ریکارڈ کرنے ہیں یا نہیں ،اس کا فیصلہ عدالت خود کرے گی ۔
دوسری جانب پاناما کیس میں سلمان اکرم راجہ کے دلائل جاری ،وزیر اعظم کے بیٹوں کے وکیل نے منروار سروسز اور اس کی ادئیگیوں کی تفصیل عدالت میں جمع کرادی جس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ جو دستاویزات آپ دکھا رہے ہیں وہ آف شور کمپنیوں کے ڈائیریکٹرز کے نام ہیں۔ سوال یہ ہے کہ نیلسن اور نیسکول کا ڈائیریکٹر کون تھا۔ جسٹس اعجاز افضل نے سوال اٹھایا کہ ،،حسین نوازکےپاس اتنی مہنگی جائیدادخریدنے کیلئےسرمایہ نہیں تھا، عدالت نے لندن میں مہنگی جائیدادوں کیلئےسرمایہ کاری کوبھی دیکھناہے۔ سلمان اکرم راجہ نے موقف اخیتار کیا کہ لگتا ہے موزیک والی دستاویزات فراڈ کر کے تیار کی گئیں،مریم کےبینیفیشل اونر ہونےکی جعلی دستاویز جمع کروائی گئی،جس پر عدالت نے ان سے مکالمہ کیا کہ آپ کہتے ہیں کہ درخواست گزار نے کوئی ثبوت نہیں دیئے۔
جب آپ سے ثبوتوں کا پوچھاجائے تو آپ کہتے ہیں کہ محمدبن قاسم سے پوچھیں ،یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ لندن جائیداد نعیم بخاری کی ہے۔
جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ دستاویزات سے ثابت کریں کہ حسین نواز کمپنیاں چلا رہے تھےجبکہ بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ کیس میں کوئی پیچیدگی نہیں ہے، عدالت نے کسی ایک فریق کا تعین تو کرنا ہے ،جس پر سلمان اکرم راجہ نے فاضل بینچ سے کہا کہ اگر آپ میری بات پر یقین نہیں کرتے تو کس پر کریں گے۔