سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور کو 9برس مکمل، شہید بچوں کی یادیں آج بھی دلوں میں زندہ

سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور کو 9برس مکمل، شہید بچوں کی یادیں آج بھی دلوں میں زندہ
سورس: file

پشاور: سانحہ آرمی پبلک سکول کی 9 ویں برسی آج منائی جا رہی ہے، سال 2014 کو آج (16 دسمبر) کے دن سفاک دہشت گردوں نے معصوم بچوں کو نشانہ بنایا۔

16 دسمبر کے معصوم شہدا کو پاکستانی عوام خراج عقیدت پیش کر رہی ہے۔ قوم کا کہنا ہے کہ ہم 16 دسمبر کے تمام شہدا کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور شہدا کے لواحقین سے اظہار ہمدردی کرتے ہیں۔ 

 16 دسمبر 2014 کو اے پی ایس پشاور میں ہونے والے دل خراش واقعے نے سینکڑوں ماؤں کی گودیں اجاڑ دیں۔کس کو پتا تھا کہ 16 دسمبر کو طلوع ہونے والا سورج پاکستان کی سرزمین کو نونہالان کے خون سے رنگ دے گا۔ 16 دسمبر سال 2014 کے دن تعلیم اور امن دشمن آرمی پبلک سکول کے عقبی راستے سے صبح 10 بجے کے قریب داخل ہوئے، آٹھویں، نویں اور دسویں جماعت کے طالب علم آڈیٹوریم میں اکھٹے تھے، دہشت گردوں نے آڈیٹویم میں داخل ہوتے ہی ہر طرف گولیوں کی بوچھاڑ کر دی، سفاک قاتلوں نے اے پی ایس کی دیواروں کو معصوموں کے خون سے رنگ دیا۔

 ابھی پاکستانی قوم سکوت ڈھاکہ کے غم میں ڈوبی ہوئی تھی کہ اے پی ایس پشاور کے واقعے نے قیامت ڈھا دی۔ دہشتگردوں کے حملے میں پرنسپل، اساتذہ، طلبہ اور دیگرعملے سمیت 140 سے زائد افراد شہید ہوئے، پاک فوج کے جوانوں نے دہشت گردوں کو بھرپور جواب دیتے ہوئے موقع پر انہیں انجام تک پہنچایا۔

سانحہ اے پی ایس نے دہشتگردی کیخلاف جنگ میں نئی روح پھونکی جس کے نتیجے میں نیشنل ایکشن پلان تشکیل پایا اور قبائلی علاقوں سے دہشتگردی کا خاتمہ ممکن ہوا، آرمی پبلک سکول حملے میں ملوث 6 دہشتگردوں کو سکیورٹی فورسز نے گرفتار کیا جنہیں ملٹری کورٹس نے موت کی سزائیں سنائی تھیں۔

نو سال بعد بھی سانحہ آرمی پبلک سکول کا غم آج بھی تازہ ہے، شہید ہونے والے بچوں کی یادوں نے مختلف خاندانوں کو آپس میں جوڑ دیا ہے، ایک شہید کے گھر میں اکھٹے ہو کر والدین اپنا غم ایک دوسرے کے ساتھ بانٹتے ہیں۔

ترکیہ کے دارالحکومت انقرہ کے علاقے کیچی اورین میں 2014  میں آرمی پبلک اسکول  پشاورپر ہونے والے وحشیانہ دہشت گردانہ حملے میں شہید ہونے والے طلبا اور عملے کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے یادگار تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ تقریب میں کیچی اورین بلدیہ کے مئیر ترگت آلتن اوک  ، ترکیہ میں پاکستان کے سفیر ڈاکٹر یوسف جنید ، سفارخانہ  پاکستان کے سفارتکاروں اور  ستاف نے شرکت کی۔

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کیچی اورین بلدیہ کے مئیر ترگت  آلتن اوک نے آے پی ایس   دہشت گردی کے حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے  پاکستان کے ساتھ مکمل  یکجہتی  کا اظہار کرتے ہوئے  ترک  عوام زندگی کے تمام پہلوؤں بالخصوص دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنے پاکستانی بھائیوں کے شانہ بشانہ ہونے سے آگاہ کیا۔میئر نے ہندوستانی عدالت کے مسئلہِ کشمیر پر غیر منصفانہ فیصلے اور بھارت کے کشمیریوں پر ظلم کے خلاف مقبوضہ جموں و کشمیر (IIOJK) کے لوگوں کو ان کے ناقابل تنسیخ حق خود ارادیت کے حصول کے لیے ترکیہ کی  مکمل حمایت  کی یقن دہانی  کروائی ۔

 تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سفیرِ پاکستان  ڈاکٹر یوسف جنید نے کہا کہ دہشت گردی میں اپنی  جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھنے والے بچوں کی یاد  کو اپنے دلوں میں زندہ رکھنے پر ترک بھائیوں کا تہہ دل سے مشکور ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہاں پر موجود 144 درخت   دہشت گردی کے خلاف جنگ میں  پاکستان اور ترکیہ کے 30 کروڑ عوام کے پختہ عزم کی عکاسی کرتے ہیں کیونکہ دونوں ممالک  دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک ہیں۔

سانحے کو آج پورے 9سال ہوچکے ہیں لیکن  غم ہے کہ مٹتا ہی نہیں کرب ہے کہ جاتا ہی نہیں اور آنسو ہیں کہ رکتے ہی نہیں۔ بزدل دشمن نہیں جانتا  اس نے اے پی ایس میں سیکڑوں پھول تو مسل دیئے لیکن ان کی خوشبو امن کی پہچان اور وطن کی آن بن گئی ۔ قریہ قریہ شہر شہر ان ننھے مجاہد وں اور شہداء کو خراج تحسین پیش کیا جارہا ہے۔

دوسری جانب سقوط ِڈھاکہ پاکستان کی تاریخ وہ سیاہ دن جو شاید کبھی بھول نہ پائے۔16 دسمبر 1971ء وہ دن تھا۔ جب بھارت کی سازشوں اور کچھ اپنوں کی بے وفائی سے اسلامی دنیا کا سب سے بڑا ملک پاکستان دو لخت ہو گیا۔مشرقی پاکستان کی مقامی آبادی اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے خلاف دشمن کے ساتھ کھڑی ہو گئی۔ ہمارے 90 ہزار فوجی گرفتار ہوئے اور انہوں نے بھارت کی قید میں طویل مدت گزاری۔52برس گزر گئے۔ مگر آج بھی اس دن کی تکلیف اور اذیت روز اول کی طرح تڑپا دیتی ہے۔سقوطِ ڈھاکہ کے ذمہ داروں کا تعین ہوا اور نہ کسی کو سزا دی گئی۔

مصنف کے بارے میں